بلوچستان میں بی ایل اے جیسی دہشتگرد تنظیم اور ماہ رنگ لانگو کے حمایتی، سہولت کار اور مفاد پرست سیاست دان اور بلوچوں کے حقوق کے نام پر اپنی سیاست چمکانے والا اختر مینگل اور اس کی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) بلوچستان حکومت کی تمام تر سنجیدہ کوششوں کے باوجود اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پر اڑا بیٹھا ہے۔
بلوچستان حکومت کی جانب مذاکرات کیلئے وفد بھی بھیجا گیا ،اس حکومتی مذاکراتی وفد کی قیادت صادق سنجرانی نے کی تھی جبکہ اس میں دو خواتین رکن اسمبلی بھی شامل تھی، عام طور پر بلوچ روایت میں یہ بات دیکھی گئی کہ جب کسی معاملے میں بلوچ خواتین بڑؒوں سے مل کر کوئی مسئلہ حل کرانا چاہیں تو ان کی بات کو اہمیت دی جاتی ہے مگر اختر مینگل نے اس روایت کا بھی پاس نہیں رکھا ہے اور وہ بضد ہے کہ کوئٹہ کی جانب لانگ مارچ ہوگا جس کیلئے اب حکومت بلوچستان نے بھی بڑے فیصلے کرلئے ہیں۔
ایک جانب بلوچستان نیشنل پارٹی، قومی یکجہتی کمیٹی، قومی وطن جمہوری پارٹی سمیت 7 جماعتیں بی ایل اے کی سہولت کار ماہ رنگ لانگو کی غیر آئینی رہائی کیلئے لانگ مارچ میں شریک ہیں تو دوسری طرف کوئٹہ سے ایک بڑی خبر بھی سامنے آئی ہے جس کے مطابق سریاب روڈ پر سی ٹی ڈی نے کارروائی کرتے ہوئے دو دہشتگردوں کو گرفتار کیا ہے۔
ان دہشتگردوں کے قبضے سے ہینڈ گرینڈ سمیت جدید اسلحہ برآمد ہوا ہے اور یہ کوئٹہ میں کسی بڑی تباہی کی منصوبہ بندی کر رہے تھے، اب اس واقعہ کو اگر اختر مینگل جیسے مفاد پرست سیاست دان کے نام نہاد انسانی حقوق کے لانگ مارچ کے ساتھ جوڑا جائے تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس دھرنے کی آڑ میں دہشتگرد تنظیمیں بالخصوص بی ایل اے وغیرہ بھی متحرک ہیں تاہم ریاست بھی پوری طرح چونکنا ہے اور اس نے ایک بڑا منصوبہ ناکام بنایا ہے۔
دوسری جانب اہم بات یہ سامنے آئی ہے کہ ماہ رنگ لانگو کی بہن نے ایک پوسٹ کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان حکومت نے جیل میں ماہ رنگ لانگو سے مذاکرات کئے ہیں اور اسے کہا ہے کہ اگر وہ بلوچستان کے بڑے شہروں میں احتجاج ترک کردے، راستے بند نہ کرے تو اسے ریلیف دیا جا سکتا ہے تاہم اس حوالے سے بلوچستان حکومت نے اس کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ ایسے کوئی مذاکرات نہیں ہوئے ہیں مذاکرات اگر ہوئے بھی ہیں تو سب کے سامنے ہوں گے۔
کوئٹہ میں آج جس لانگ مارچ اور دھرنے کا اعلان کیا گیا ہے اس کے عوامل دیکھنے ضروری ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ یہ لانگ مارچ اور دھرنے کسی طرح بھی بلوچ عوام کے حقوق کیلئے نہیں بلکہ ایک ایسی ملک دشمن خاتون کی غیر آئینی رہائی کیلئے دیا جا رہا ہے جس نے دہشتگردوں کی حمایت کی ، جہنم واصل دہشتگردوں کی لاشیں ہسپتال پر حملہ کرکے قبضے میں لیں جس پر اس کیلئے قانون کے مطابق ایف آئی آر درج کرکے مقدمہ بھی دائر کیا گیا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس کوئی دو رائے نہیں کہ جو شخص بھی چاہے کہ کتنا ہی طاقتور یا عوامی حمایت کا حامل ہے اگر وہ دہشتگردوں کی حمایت کرتا ہے تو وہ پاکستان کا دشمن ہے۔ اس لحاظ سے ماہ رنگ لانگو اور اس کی قومی یکجہتی کمیٹی بلاشبہ پاکستان دشمن ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے جعفر ایکسپریس کے دہشتگردوں کے ساتھ کھڑی ہے۔
اب حکومت کیلئے ضروری ہے کہ وہ پرامن عوام جو صوبے میں اور صوبے کے شہروں میں امن و استحکام چاہتے ہیں کیلئے جو بھی آئین کے اندر رہتے ہوئے اقدامات کرسکتی ہے کرے اور اختر مینگل اور دیگر ملک دشمن عناصر جو نام نہاد انسانی حقوق کی آڑ میں دہشتگردوں کے سہولت کار بن چکے ہیں ان کیخلاف آہنی ہاتھوں سے نمٹے۔