تحریر : محمد اکرم چوہدری
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا تم رمضان المبارک سے نہ ایک دن اور نہ ہی دو دن پہلے روزہ رکھو سوائے اس آدمی کے جو اس دن روزہ رکھتا تھا تو اسے چاہیے کہ وہ رکھ لے۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اپنی ازواج مطہرات سے ایک مہینہ تک علیحدہ رہے انتیس دن گزر جانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم ہماری طرف صبح کے وقت تشریف لائے تو کچھ لوگوں نے آپ سے عرض کیا اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم انتیس دنوں کے بعد تشریف لے آئے؟ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے اپنے ہاتھوں کو تین مرتبہ ملایا دو مرتبہ اپنے ہاتھوں کی ساری انگلیوں کے ساتھ اور تیسری مرتبہ میں نو انگلیوں کے ساتھ۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے قسم اٹھائی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اپنی کچھ ازواج مطہرات کے پاس ایک مہینہ تک نہیں جائیں گے۔ تو جب انتیس دن گزر گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم صبح یا شام ان کی طرف تشریف لے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے نبی! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے تو قسم اٹھائی تھی کہ آپ ایک مہینہ تک ہماری طرف تشریف نہیں لائیں گے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا کہ مہینہ انتیس دنوں کا بھی ہوتا ہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے اپنے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر مارا اور فرمایا کہ مہینہ اس طرح اور اس طرح ہوتا ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے تیسری مرتبہ ایک انگلی کم فرما لی۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے چاند کے دیکھنے کے لئے بڑھا دیا ہے تو اگر مطلع ابرآلود ہو تو گنتی پوری کرو۔ حضرت عبدالرحمن بن ابی بکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا کہ عید کے دو ماہ ناقص نہیں ہوتے ایک رمضان المبارک کا دوسرے ذی الحجہ کا۔ حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ جب البقرہ : کی آیت 187) نازل ہوئی تو حضرت عدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے عرض کیا اے اللہ کے رسول! میں نے اپنے تکیے کے نیچے سفید اور سیاہ رنگ کے دو دھاگے رکھ لئے ہیں جن کی وجہ سے میں رات اور دن میں امتیاز کرلیتا ہوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا کہ تمہارا تکیہ بہت چوڑا ہے کہ جس میں رات اور دن سما گئے ہیں " خیط الاسود" سے رات کی تاریکی اور’’ خیط الابیض‘‘ سے دن کی سفیدی مراد ہے۔
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب البقرہ کی آیت 187 نازل ہوئی تو بعض آدمی سفید دھاگہ اور سیاہ دھاگہ لے لیتے اور جب تک ان میں واضح امتیاز نظر نہ آتا تو کھاتے رہتے یہاں تک اللہ تعالیٰ نے لفظ " من الفجر " نازل فرمایا اور سفید دھاگے کی وضاحت ہو گئی۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ رات کے وقت ہی اذان دے دیتے تھے لہٰذا تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اذان سنو۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے دو مؤذن تھے حضرت بلال اور حضرت ابن ام مکتوم نابینا تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا کہ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو رات کے وقت ہی اذان دے دیتے ہیں لہذا تم کھاتے اور پیتے رہو یہاں تک کہ حضرت ابن ام مکتوم اذان دیں راوی نے کہا کہ ان دونوں کی اذان میں کوئی فرق نہیں تھا سوائے اس کے کہ وہ اذان دے کر اترتے تھے اور یہ چڑھتے تھے۔ حضرت ابن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا تم میں سے کوئی حضرت بلال کی اذان کی وجہ سے نہ رکے یا آپ نے فرمایا کہ حضرت بلال کی پکار سحری کھانے سے نہ روکے کیونکہ وہ اذان دیتے ہیں یا فرمایا کہ وہ پکارتے ہیں تاکہ نماز میں کھڑا ہونے والا سحری کھانے کے لئے لوٹ جائے اور تم میں سے سونے والاجاگ جائے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے یہ فرما کر ہاتھ سیدھا کیا اور اوپر کو بلند کیا یہاں تک کہ آپ فرماتے کہ صبح اس طرح نہیں ہوتی پھر انگلیوں کو پھیلا کر فرمایا کہ صبح اس طرح ہوتی ہے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا کہ سحری کھایا کرو کیونکہ سحری کے کھانے میں برکت ہوتی ہے۔ حضرت عمر بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا ہمارے روزے اور اہل کتاب کے روزے کے درمیان سحری کھانے کا فرق ہے۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے ساتھ سحری کھائی پھر نماز کے لیے کھڑے ہوئے میں نے عرض کیا کہ سحری کھانے اور نماز کے درمیان کتنا وقفہ تھا آپ نے فرمایا پچاس آیات کے برابر۔
حضرت ابوعطیہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ میں اور مسروق دونوں نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓکی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا ام المومینن! محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے ساتھیوں میں سے دو آدمی ہیں ان میں سے ایک افطاری میں جلدی کرتا ہے اور نماز میں بھی جلدی کرتا ہے دوسرا ساتھی افطاری میں تاخیر کرتا ہے اور نماز میں بھی تاخیر کرتا ہے؟ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے فرمایا کہ ان میں سے وہ کون ہیں جو افطاری میں جلدی کرتے ہیں اور نماز بھی جلدی پڑھتے ہیں حضرت ابوعطیہ کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا کہ وہ حضرت عبداللہ ؓ ہیں یعنی ابن مسعود، حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم بھی اسی طرح کیا کرتے تھے اب کریب کی روایت میں اتنا زائد ہے کہ دوسرے ساتھی حضرت ابو موسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔
اللہ تعالٰی ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی سنتوں پر عمل کرتے ہوئے رمضان المبارک کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین