پشاور ہائیکورٹ نے مخصوص نشستوں کے حوالے سے سنی اتحاد کونسل کی درخواست پر سماعت کل تک ملتوی کردی۔
بدھ کے روز پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس اشتیاق ابراہیم کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بنچ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں میں تقسیم کرنے سے متعلق کیس کی سماعت کی جبکہ جسٹس اعجاز انور، جسٹس ایس ایم عتیق شاہ، جسٹس شکیل احمد اور جسٹس سید ارشد علی لارجر بینچ کا حصہ ہیں۔
گزشتہ سماعت
پشاور ہائیکورٹ نے قومی اسمبلی کی مخصوص نشستوں پر پسیکر قومی اسمبلی کو منتخب ارکان کے حلف سے روکا ہوا ہے جبکہ گزشتہ سماعت پر لارجر بنچ نے اٹارنی جنرل اور ایڈوکیٹ جنرل کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا تھا۔
عدالت نے چھ آئینی سوالات اٹھائے اور ان پر اٹارنی جنرل اور ایڈوکیٹ جنرل سے معاونت طلب کی تھی۔
آج کی سماعت کا احوال
آج ہونے والی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان عدالت عالیہ میں پیش ہوئے۔
وکیل درخواست گزار کے دلائل
وکیل درخواست گزار قاضی انور ایڈوکیٹ نے دلائل دیئے کہ انتخابی نشان پر پشاور ہائیکورٹ نے فیصلہ دیا اور سپریم کورٹ نے اسے کالعدم قرار دیا، جب سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا تو ہم سے نشان واپس لیا گیا، اس فیصلے کے بعد سارے پی ٹی آئی امیدوار آزاد تصور ہوئے۔
قاضی انور ایڈوکیٹ نے کہا کہ الیکشن میں کامیابی کے بعد آزاد امیدوار جیت گئے تو نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد ایک پارٹی کو جوائن کرنا ہوتا ہے اس لئے آزاد امیدواروں نے سنی اتحاد کونسل کو جوائن کیا۔
جسٹس اشتیاق ابراہیم نے استفسسار کیا کہ کیا سنی اتحاد کونسل کا کوئی امیدوار الیکشن میں کامیاب ہوا؟ جس پر قاضی انور نے بتایا کہ سنی اتحاد کونسل کا کوئی امیدوار کامیاب نہیں ہوا۔
جسٹس سید ارشد علی نے ریمارکس دیئے کہ ان کا جو چیئرمین ہے اس نے تو خود آزاد حیثیت سے الیکشن لڑا اور کامیاب ہوا، اگر 8، 9 سیاسی جماعتیں مل کرایک پارٹی بناتی ہیں ، جس نے الیکشن میں حصہ نہ لیا ہو تو پھر کیا ہوگا جبکہ جسٹس اشتیاق ابراہیم نے ریمارکس دیئے کہ جب الیکشن ایکٹ 2017 پاس ہو رہا تھا تو اس وقت کیا اس بات کا خیال نہیں رکھا گیا کہ ایسی صورتحال میں کیا ہوگا۔
اٹارنی جنرل
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سیکشن 104 سب سیکشن 4 میں اس کا ذکر ہے، جب پارٹی الیکشن میں حصہ لیتی ہے اور سیٹ حاصل کرتی تو پھر اس کو مخصوص نشستیں ملے گی، جب ایک پارٹی الیکشن میں حصہ لیتی ہے تو اس کو یہ امید ہوتی ہے کہ ان کو سیٹ ملے گی، اس وجہ سے پارٹی مخصوص نشستوں کیلئے لسٹ جمع کراتی ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ سیاسی جماعت کو پارلیمان میں نمائندگی کے مطابق مخصوص نشستیں ملے گی، آرٹیکل 51 اور سیکشن 104 کے مطابق ایک جنرل نشست پر ان کو مخصوص نشست ملے گی، کاغذات نامزدگی کے آخری دن سے پہلے مخصوص نشستوں کی لسٹ جمع کرانی ہوتی ہے، سنی اتحاد کونسل کی کوئی جنرل نشست نہیں اور نہ مخصوص لسٹ پہلے جمع ہوئی۔
وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ انتخابات سے قبل سیاسی جماعت نے فارم 66 الیکشن کمیشن میں جمع کرانا ہوتا ہے، درخواست گزار نے ابھی تک فارم 66 جمع ہی نہیں کرایا۔
جسٹس عتیق شاہ نے استفسار کیا کہ کیا انہوں نے الیکشن کے بعد بھی فارم 66 جمع نہیں کرایا جبکہ جسٹس اعجاز انور نے استفسار کیا کہ الیکشن کے بعد کیسے کوئی فارم 66 جمع ہو سکتا ہے؟۔
جسٹس اشتیاق ابراہیم نے ریمارکس دیئے کہ اس لیے تو ان کو مخصوص نشستیں فراہم نہیں کی گئی۔
فاروق ایچ نائیک
پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیئے کہ ان کی نہ کوئی فہرست تھی اور نہ ہی کوئی نشست ، جو ان سے چھینی جاتی۔
جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیئے کہ آئین میں لفظ سیکور اس لیے استعمال ہوا ہے کہ اس میں آزاد بھی شامل ہوں گی جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ سیٹ سیکور کرنے اور وین میں فرق ہوتا ہے۔
بعدازاں، 5 رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کل صبح 9 بجے تک ملتوی کر دی۔