تحریر : محمد اکرم چوہدری
طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی پریشان حال بال بکھرے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کی خدمت میں حاضر ہوا اس نے پوچھا: یا رسول اللہ! بتائیے مجھ پر اللہ تعالیٰ نے کتنی نمازیں فرض کی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا کہ پانچ نمازیں، یہ اور بات ہے کہ تم اپنی طرف سے نفل پڑھ لو، پھر اس نے کہا بتائیے اللہ تعالیٰ نے مجھ پر روزے کتنے فرض کئے ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا کہ رمضان کے مہینے کے، یہ اور بات ہے کہ تم خود اپنے طور پر کچھ نفلی روزے اور بھی رکھ لو، پھر اس نے پوچھا اور بتائیے زکوٰۃ کس طرح مجھ پر اللہ تعالیٰ نے فرض کی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے اسے شرع اسلام کی باتیں بتادیں۔ جب اس اعرابی نے کہا اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کو عزت دی نہ میں اس میں اس سے جو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر فرض کردیا ہے کچھ بڑھاؤں گا اور نہ گھٹاؤں گا، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا اگر اس نے سچ کہا ہے تو یہ مراد کو پہنچایا (آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے یہ فرمایا کہ) اگر سچ کہا ہے تو جنت میں جائے گا۔
ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے یوم عاشورہ کا روزہ رکھا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے اس کے رکھنے کا صحابہ ؓ کو ابتداء اسلام میں حکم دیا تھا، جب ماہ رمضان کے روزے فرض ہوگئے تو عاشورہ کا روزہ بطور فرض چھوڑ دیا گیا، عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ عاشورہ کے دن روزہ نہ رکھتے مگر جب ان کے روزے کا دن ہی یوم عاشورہ آن پڑتا۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا قریش زمانہ جاہلیت میں عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بھی اس دن روزہ کا حکم دیا یہاں تک کہ رمضان کے روزے فرض ہوگئے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا کہ جس کا جی چاہے یوم عاشورہ کا روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے نہ رکھے۔ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا روزہ دوزخ سے بچنے کے لیے ایک ڈھال ہے اس لیے (روزہ دار) نہ فحش باتیں کرے اور نہ جہالت کی باتیں اور اگر کوئی شخص اس سے لڑے یا اسے گالی دے تو اس کا جواب صرف یہ ہونا چاہیے کہ میں روزہ دار ہوں، (یہ الفاظ) دو مرتبہ (کہہ دے) اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ پسندیدہ اور پاکیزہ ہے، (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) بندہ اپنا کھانا پینا اور اپنی شہوت میرے لیے چھوڑ دیتا ہے، روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا اور (دوسری) نیکیوں کا ثواب بھی اصل نیکی کے دس گنا ہوتا ہے۔
حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا فتنہ کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کی حدیث کسی کو یاد ہے؟ حذیفہؓ نے بیان کیا کہ میں نے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا تھا کہ انسان کے لیے اس کے بال بچے، اس کا مال اور اس کے پڑوسی فتنہ (آزمائش و امتحان) ہیں جس کا کفارہ نماز روزہ اور صدقہ بن جاتا ہے۔ عمر ؓ نے کہا کہ میں اس کے متعلق نہیں پوچھتا میری مراد تو اس فتنہ سے ہے جو سمندر کی موجوں کی طرح امنڈ آئے گا۔ اس پر حذیفہ ؓ نے کہا کہ آپ کے اور اس فتنہ کے درمیان ایک بند دروازہ ہے۔ (یعنی آپ کے دور میں وہ فتنہ شروع نہیں ہوگا) عمر ؓ نے پوچھا وہ دروازہ کھل جائے گا یا توڑ دیا جائے گا؟ حذیفہؓ نے بتایا کہ توڑ دیا جائے گا۔ عمرؓ نے فرمایا کہ پھر تو قیامت تک کبھی بند نہ ہو پائے گا۔ ہم نے مسروق سے کہا آپ حذیفہ ؓ سے پوچھئے کہ کیا عمر ؓ کو معلوم تھا کہ وہ دروازہ کون ہے، چناچہ مسروق نے پوچھا تو آپ ؓ نے فرمایا ہاں! بالکل اس طرح (انہیں علم تھا) جیسے رات کے بعد دن کے آنے کا علم ہوتا ہے۔ سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا، جنت کا ایک دروازہ ہے جسے ریان کہتے ہیں قیامت کے دن اس دروازہ سے صرف روزہ دار ہی جنت میں داخل ہوں گے ، ان کے سوا اور کوئی اس میں سے نہیں داخل ہوگا، پکارا جائے گا کہ روزہ دار کہاں ہے؟ وہ کھڑے ہوجائیں گے ان کے سوا اس سے اور کوئی نہیں اندر جانے پائے گا اور جب یہ لوگ اندر چلے جائیں گے تو یہ دروازہ بند کردیا جائے گا پھر اس سے کوئی اندر نہ جاسکے گا۔
ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا جو اللہ کے راستے میں دو چیزیں خرچ کرے گا اسے فرشتے جنت کے دروازوں سے بلائیں گے کہ اے اللہ کے بندے! یہ دروازہ اچھا ہے پھر جو شخص نمازی ہوگا اسے نماز کے دروازہ سے بلایا جائے گا جو مجاہد ہوگا اسے جہاد کے دروازے سے بلایا جائے جو روزہ دار ہوگا اسے باب الرہان سے بلایا جائے گا اور جو زکوٰۃ ادا کرنے والا ہوگا اسے زکوٰۃ کے دروازہ سے بلایا جائے گا۔ اس پر ابوبکر ؓ نے پوچھا میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم پر فدا ہوں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم ! جو لوگ ان دروازوں (میں سے کسی ایک دروازہ) سے بلائے جائیں گے مجھے ان سے بحث نہیں، آپ یہ فرمائیں کہ کیا کوئی ایسا بھی ہوگا جسے ان سب دروازوں سے بلایا جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ نے فرمایا کہ ہاں اور مجھے امید ہے کہ آپ بھی انہیں میں سے ہوں گے۔ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو آسمان کے تمام دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیاطین کو زنجیروں سے جکڑ دیا جاتا ہے۔ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ جب رمضان کا چاند دیکھو تو روزہ شروع کر دو اور جب شوال کا چاند دیکھو تو روزہ افطار کر دو اور اگر ابر ہو تو اندازہ سے کام کرو۔ (یعنی تیس روزے پورے کر لو)
اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان المبارک سے بہترین انداز میں فائدہ اٹھانے اور اس مبارک مہینے کو ویسے گذارنے کی توفیق عطاء فرمائے جیسے اس ماہ مبارک کا حق ہے۔ اللہ ہمارے گناہوں کو معاف فرمائے اور ہمیں نیکیاں کرنے اور آسانیاں پیدا کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین