سپریم کورٹ نے نیشنل پارک کی آٹھ ہزار چھ سو ایکٹر اراضی کا اصل ریکارڈ طلب کر تے ہوئے ملٹری اسٹیٹ آفس کے اعلیٰ افسر کو اٹارنی جنرل کے ہمراہ 21مارچ کو پیش ہونے کا حکم دیدیا۔
سپریم کورٹ میں مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں ریسٹورنٹ کی لیز اور وائلڈ لائف بورڈ کی آئینی درخواستوں پر سماعت ہوئی ۔چیف جسٹس پاکستان نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے کہا جب کوئی طاقتور آ جاتا ہے تو آپ کی ہوا نکل جاتی ہے،قانون کی دھجیاں مت اڑائیں ، کوئی ملٹری لینڈ نہیں،اراضی حکومت پاکستان کی ہوتی ہے،سادہ سا سوال پوچھاہےکہ مارگلہ نیشنل پارک سی ڈی اے کی ملکیت ہے یا کسی اور کی ۔
آر وی ایف کے متعلق عدالتی استفسار پر ریسٹورنٹ کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے بتایا یہ پاکستان آرمی کا پراجیکٹ ہے جو فارمز سے متعلق ہے ۔چیف جسٹس نے کہا کیا آئین کے تحت یہ درست بات ہے ؟ کیا کل انفنٹری بریگیڈ اس طرح کی درخواست داخل کر سکتا ہے ؟ آپ کی لیز ختم ہو گئی ٹاٹا بائے بائے ، آپ اپنی مرضی سے لینڈ لارڈ کو تبدیل نہیں کر سکتے۔
یہ بھی پڑھیں :۔سی ڈی اے کو مارگلہ ہلز پر سہولت سینٹر سمیت تمام دفاتر وائلڈ لائف بورڈ کو واپس کرنے کا حکم
انہوں نے کہا کہ آپ آر وی ایف کےحق میں ڈگری مانگ رہے ہیں ، آٹھ ہزار تریسٹھ ایکٹر اراضی انیس سو دس سےملکیت ہے تو ریکارڈ دکھا دیں ، آپ ایسے کاغذ کےٹکڑے پر انحصار کر رہےہیں جس پر کسی کےدستخط بھی نہیں ، نومبر دو ہزار سولہ میں گراس فارم واپس کیا گیا اگر سی ڈی اے متاثر ہوتا تو اسے چیلنج کرتا ۔
دوران سماعت جسٹس عرفان سعادت خان نے کہا کہ آپ ایک طرف کہتے ہیں سی ڈی اے مالک نہیں ، دوسری طرف کہتے ہیں آر وی ایف سےلیز قانونی ہے،ایسا قطعاً نہیں ہوتا ، کیا یہ سی ڈی اے سے آرمی ٹیک اوور کا کیس ہے ؟
ریسٹورنٹ کے وکیل نےبتایا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ اس وقت آرمی چیف تھے ۔ چیف جسٹس نے کہا آپ کہتے ہیں تو نوٹس دے کر انہیں بلا لیتے ہیں ، اگر آپ یہ کامیڈی شو جاری رکھنا چاہتے ہیں تو آپ کی مرضی ۔
چیف جسٹس نے ملٹری اسٹیٹ آفس کےنمائندےسے کہا اکیس مارچ کو آئندہ سماعت پر ساری اوریجنل فائلز لے کر آئیں ، اٹارنی جنرل کو ساتھ لائیں اور واضح کریں کہ ملٹری اسٹیٹ آفس کا جی ایچ کیو سے کیا تعلق ہے ۔