سپریم کورٹ نے کیپٹیل ڈویلپمنٹ اتھارٹی ( سی ڈی اے ) کو مارگلہ ہلز پر سہولت سینٹر سمیت تمام دفاتر وائلڈ لائف بورڈ کو واپس کرنے کا حکم دے دیا جبکہ اٹھایا گیا سامان بھی دوبارہ نصب کرنے کی ہدایت اور سی ڈی اے سے مارگلہ نیشنل پارک میں موجود ریسٹ ہاؤسز سمیت تمام عمارتوں کا ریکارڈ بھی طلب کرلیا۔
جمعرات کے روز سپریم کورٹ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں بینچ نے مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں ریسٹورنٹ تنازع پر سماعت کی جس کے دوران سی ڈی اے اور وائلڈ لائف کے وکلاء عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے۔
سماعت کا آغاز
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پہلے سی ڈی اے کی زبانی سن لیتے ہیں ، کیا یہ ڈیکلیئرڈ نیشنل پارک ہے؟ جس پر وکیل نے بتایا کہ جی یہ ڈیکلیئرڈ نیشنل پارک ہے، چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کب اسے نیشنل پارک نوٹیفائی کیا گیا؟ جس پر وکیل نے بتایا کہ مارگلہ ہلز کو 1980 میں نوٹیفکیشن کے ذریعے نیشنل پارک ڈیکلیئر کیا گیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سب سے آخری چیز اللہ نے انسان بنائی اور احسن تقویم کہا، انسان کو خلیفہ فی الارض بنایا گیا ہے، ارض میں جانور اور جنگلات سب آتا ہے ، ہم یہ بھول گئے، نبی آخر الزماں ﷺ کو کس نام سے یاد کیا گیا؟ حضور اکرم ﷺ کو رحمت العالمین کہا گیا ہے، اس کا مطلب کیا ہوا؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ اس کا مطلب ہے وہ تمام جہانوں کیلئے رحمت ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ صرف مسلمانوں یا انسانوں نہیں پرندوں اور جہانوں کیلئے بھی ہیں، معراج کی رات کیوں تمام انبیا نے نبی ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی؟، کسی اور پیغمبر کو کیوں یہ اعزاز نہ دیا گیا؟ جس پر وکیل نے کہا کہ ہمارا علم اس معاملے میں محدود ہے۔
چیف جسٹس نے بتایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے انہیں دعوت دی تھی کہ امامت کرائیں، اس کا مطلب تھا کہ آپ ﷺ کے بعد بات ختم۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمیں نبی اکرم ﷺ سے ہی رہنمائی لینی ہے، ہم مذہبی ریاست ہیں، ہمارے لیے آپ ﷺ سرچشمہ ہدایت ہیں، اللہ نے پیارے نبی ﷺ کو حبیب اللہ کا لقب دیا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہمارا آئین کھولیں سب سے پہلے کیا لکھا ہوا ہے؟ جس پر وکیل نے بتایا کہ آئین کے آغاز میں لکھا ہے حاکمیت اعلی اللہ کے پاس ہے۔
عمر اعجاز گیلانی نے موقف اختیار کیا کہ ہم سی ڈی اے کیخلاف نہیں آئے، چاہتے ہیں ملکر چلیں، ہم چاہتے ہیں ایک دوسرے کی راہ میں روڑے نہ اٹکائے جائیں، سی ڈی اے والے ہمارے بورڈ میں بھی بیٹھتے ہیں،
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ سب سے بہتر اخلاق کس کا ہے؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ نبی ﷺ کا اخلاق سب سے اچھا ہے۔
انسان کو پہلا سبق ایک کوے نے سکھایا، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے کہا کہ انسان کو پہلا سبق ایک کوے نے سکھایا، ایک پرندے نے ہابیل اور قابیل معاملے پر دفنانے کا سبق سکھایا، قرآن میں بھی پرندے کا ذکر آیا تو کچھ تو اہمیت ہے، مارگلہ ہلز میں جائیں ، کتنی اچھی آوازیں ہیں پرندوں کی، اللہ تعالی قرآن مجید میں والتین و زیتون کی قسم کھاتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سی ڈی اے مالک نہیں نیشنل پارک میں بس ایک کردار ہے، وائلڈ لائف بھی کام کرے اور سی ڈی اے بھی کرے، وکیل مناسب بات نہیں کر رہے تو چیئرمین سی ڈی اے کو بلا لیتے ہیں، کون ہے چئیرمین سی ڈی اے؟ جس پر وکیل نے بتایا کہ کیپٹن (ر) انوار الحق چیئرمین سی ڈی اے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیپٹن ہیں تو پھر نوجوان آدمی ہوں گے۔
وکیل کا کہنا تھا کہ سی ڈی اے نے وائلڈ لائف سے مارگلہ ہلز میں 3 جگہیں لے لیں، ٹریلز پر بنے پبلک انفارمیشن سینیٹر بھی ہم سے لے لیے گئے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ ایک ساتھ 3 جگہیں لے لی گئی ہیں؟ جبکہ جسٹس عرفان سعادت نے ریمارکس دیئے کہ جیسے قبضہ لیا گیا یہ طریقہ کار مناسب نہیں تھا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا سی ڈی اے اتنا معمولی کام ہے کہ کمشنر کو اضافی چارج دے دیا؟، کیا اس طرح حکومتیں چلتی ہیں؟ کچھ دن کیلئے تو اضافی چارج دیا جاسکتا ہے مگر مستقل کیسے؟۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ کتنی دیر سی ڈی اے آتے ہیں اور کتنی دیر کمشنر آفس؟ جس پر وکیل نے بتایا کہ یہ روز ہی سی ڈی اے آفس آتے ہیں۔
چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ اتنے لوگ ہیں بیوروکریسی میں،ایک شخص کو 2 عہدے دے دیئے؟، وہ سی ڈی اے میں ٹھیک کام نہیں کر پاتے ہوں گے یا کمشنر آفس جس پر وکیل وائلڈ لائف نے بتایا کہ ہائیکورٹ 2 عہدے ایک ہی شخص کو دینا غیر قانونی کہہ چکی، فرخ نواز بھٹی کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ موجود ہے۔
آج کی سماعت کا حکمنامہ
بعدازاں چیف جسٹس نے آج کی سماعت کا حکمنامہ لکھوایا جس کے مطابق سی ڈی اے کو وائلڈلائف بورڈ کے دفاتر واپس کرنے کا حکم دیا گیا اور ٹریل 5 پر پبلک انفارمیشن سینٹر سمیت دفاتر واپس کرنے کی ہدایت کی گئی۔
حکمنامے میں کہا گیا کہ وائلڈ لائف بورڈ کے دفاتر سے اٹھایا گیا سامان بھی واپس کیا جائے، نیشنل پارک میں آتشزدگی کا خطرہ رہتا ہے، وائلڈ لائف بورڈ خطرات سے نمٹنے کیلئے سامان دوبارہ نصب کرے۔
حکمنامے کے مطابق عدالت کو بتایا گیا بغیر نوٹس کے سی ڈی اے نے جگہیں خالی کرائیں، سی ڈی اے نے وائلڈ لائف کے دفاتر سے سامان بھی نکال دیا، شہریوں کے بنیادی حقوق میں باوقار زندگی بھی شامل ہے، سی ڈی اے نے جس طرز عمل کا مظاہرہ کیا وہ نامناسب تھا۔
وکیل سی ڈی اے نے استدعا کی کہ سی ڈی اے کو بھی وہ عمارات شئیر کرنے دی جائیں جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایک چیز ایجاد ہو چکی ہے اسے گاڑی کہتے ہیں، آپ سی ڈی اے آفس سے گاڑی پر مارگلہ ہلز جائیں جب ضرورت ہو۔
وکیل وائلڈ لائف بورڈ کا کہنا تھا کہ سی ڈی اے کے پاس ریسٹ ہاوس موجود ہے جس پر عدالت عظمیٰ کی جانب سے کہا گیا کہ سی ڈی اے کے ریسٹ ہاؤس عوام کیلئے استعمال ہونے چاہئیں۔
عدالت نے سی ڈی اے کو نیشنل پارک میں ریسٹ ہاؤسز کی تصاویر فراہم کرنے کا حکم بھی دیا اور کہا کہ سی ڈی اے کی مارگلہ ہلز میں جو بھی پراپرٹی ہے ظاہر کرے۔
سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل اور ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت 11 مارچ تک ملتوی کردی۔