حضرت ابوحازم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا کہ وہ اپنی انگلیوں سے بار بار اشارہ کرتے ہوئے فرما رہے ہیں قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ وقدرت میں ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جان ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلّم اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کے گھر والوں نے لگاتار تین دن تک کبھی بھی گندم کی روٹی سے سیر ہو کر نہیں کھایا یہاں تک کہ اس دنیائے فانی سے رحلت فرما گئے۔ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ کیا تم لوگ جو چاہتے ہو کھاتے اور پیتے نہیں ہو؟ جبکہ میں نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کو دیکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کو خراب کھجور بھی پیٹ بھر کر نہیں ملتی تھی۔ حضرت سماک بن حرب سے روایت ہے کہ میں نے حضرت نعمان سے خطبہ دیتے ہوئے سنا انہوں نے فرمایا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ذکر فرمایا کہ لوگوں نے جو دنیا حاصل کرلی ہے اس کا ذکر کیا اور فرمایا میں نے رسول اللہ کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم سارا دن بھوک کی وجہ سے بے قرار رہتے تھے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم خراب کھجور تک نہ پاتے تھے کہ جس سے اپنا پیٹ بھر لیں۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک آدمی نے سوال کیا کہ کیا ہم مہاجرین فقراء میں سے نہیں ہیں تو حضرت عبداللہ نے اس آدمی سے فرمایا کیا تیری بیوی ہے جس کے پاس تو رہتا ہے وہ کہنے لگا ہاں حضرت عبداللہ نے فرمایا پھر تو تو غنی لوگوں میں سے ہے اس آدمی نے کہا میرے پاس ایک خادم بھی ہے عبداللہ نے فرمایا پھر تو تو بادشاہوں میں سے ہے۔ ابوعبدالرحمن فرماتے ہیں کہ تین آدمی حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ کے پاس آئے اور میں ان کے پاس موجود تھا وہ آدمی کہنے لگا اے ابومحمد اللہ کی قسم ہمارے پاس کچھ نہیں ہے نہ خرچ ہے نہ سواری نہ مال ومتاع حضرت عبداللہ نے ان تینوں آدمیوں سے فرمایا تم کیا چاہتے ہو اگر تم یہ چاہتے ہو کہ تم ہماری طرف لوٹ آؤ ہم تمہیں وہ دیں گے جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے تمہارے مقدر میں لکھ دیا ہے اور اگر تم چاہو تو تمہارا ذکر بادشاہ سے کریں اور اگر تم چاہو تو صبر کرو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم فرماتے ہیں ہم مہاجرین فقراء قیامت کے دن مالداروں سے چالیس سال پہلے جنت میں جائیں گے وہ آدمی کہنے لگا ہم لوگ صبر کریں گے اور ہم کچھ نہیں مانگتے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے پتھروں والے یعنی قوم ثمود کے بارے میں فرمایا اس قوم کے گھروں کے پاس سے نہ گزرو کیونکہ انہیں عذاب دیا گیا ہے سوائے اس کے کہ وہاں سے روتے ہوئے گزرو اور اگر تمہیں رونا نہیں آتا تو پھر وہاں سے نہ گزرو کہیں ایسا نہ ہو کہ تم پر بھی وہ عذاب مسلط ہوجائے کہ جو عذاب قوم ثمود پر مسلط ہوا تھا۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کے ساتھ قوم ثمود کے علاقہ میں اترے تو انہوں نے اس جگہ کے کنوؤں سے پینے کا پانی لیا اور انہوں نے اس پانی سے آٹا بھی گوندھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے اپنے صحابہ کرام کو حکم فرمایا پینے والا پانی بہا دیا جائے اور اس پانی سے گوندھا گیا آٹا اونٹوں کو کھلا دیا جائے اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے ان کو حکم فرمایا کہ اس کنوئیں سے پانی لیا جائے کہ جس کنوئیں پر حضرت صالح کی اونٹنی پانی پینے آئی تھی۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا کہ بیوہ عورت اور مسکینوں پر کوشش کرنے والا اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے (مجاہد) کی طرح ہے اور میں گمان کرتا ہوں کہ وہ اس قائم کی طرح ہے کہ جو نہ تھکتا ہو اور اس صائم کی طرح ہے کہ جو افطار نہ کرتا ہو۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا کسی یتیم بچے کی کفالت کرنے والا اس کا کوئی قریبی رشتہ دار یا اس کے علاوہ اور جو کوئی بھی ہو اور وہ جنت میں اس طرح ہوں گے حضرت مالک ؓ نے شہادت کی اور درمیانی انگلی سے اشارہ کر کے بتایا۔ محمود بن لبید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسجد بنانے کا ارادہ فرمایا تو لوگوں نے اسے ناپسند سمجھا اور وہ لوگ اس بات کو پسند کرنے لگے کہ اس مسجد کو اسی حالت پر چھوڑ دیا جائے تو حضرت عثمان ؓ نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم فرماتے ہیں کہ جس آدمی نے اللہ کے لئے مسجد بنائی تو اللہ جنت میں اس کیلئے اس جیسا ایک گھر بنا دے گا۔
حضرت ابوہریرہ ؓ نبیؐ سے روایت کرتے ہیں آپؐ نے فرمایا ایک آدمی ایک جنگل میں تھا کہ اس نے بادلوں سے ایک آواز سنی کہ فلاں باغ کو پانی لگاؤ تو پھر ایک بادل ایک طرف چلا اور اس نے ایک پتھریلی زمین پر بارش برسائی اور وہاں نالیوں میں سے ایک نالی بھر گئی وہ آدمی برستے ہوئے پانی کے پیچھے پیچھے گیا اچانک اس نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ اپنے باغ میں کھڑا ہو اپنے پھاوڑے سے پانی ادھر ادھر کر رہا ہے اس آدمی نے باغ والے آدمی سے کہا اے اللہ کے بندے تیرا نام کیا ہے اس نے کہا فلاں اور اس نے وہی نام بتایا کہ جو اس نے بادلوں میں سنا تھا پھر اس باغ والے آدمی نے اس سے کہا تو نے میرا نام کیوں پوچھا ہے اس نے کہا میں نے ان بادلوں میں سے جس سے یہ پانی برسا ہے ایک آواز سنی ہے کہ کوئی تیرا نام لے کر کہتا ہے کہ اس باغ کو سیراب کر، تم اس باغ میں کیا کرتے ہو اس نے کہا جب تو نے یہ کہا ہے کہ تو سنو میں اس باغ میں پیداوار پر نظر رکھتا ہوں اور اس میں سے ایک تہائی صدقہ خیرات کرتا ہوں اور ایک تہائی اس میں سے میں اور میرے گھر والے کھاتے ہیں جبکہ ایک تہائی میں اسی باغ میں لگا دیتا ہوں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کی سنتوں پر عمل کرنے انہیں پھیلانے اور جو لوگ سنتوں کو پھیلا رہے ہیں ان کے ساتھ تعاون کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین