’’ لاہور ہمیشہ لاہور رہے گا‘‘
میرا شہر لاہور ایسا تاریخی شہر ہے کہ دنیا بھر میں اس کے چرچے ہیں، دنیا بھر میں اس تاریخی شہر کی شہرت ہے، دنیا کے مختلف ممالک کے سفیران کرام لاہور سے بہت محبت رکھتے ہیں، دنیا کے مختلف ممالک میں بسنے والے لاہوریوں کی بھی شہر سے محبت بے مثال ہے۔
لاہور تاریخی عمارتوں کا شہر ہے، یہاں لگ بھگ ساڑھے چار سو سے زائد ایسی عمارتیں ہیں جو دنیا بھر قدیم عمارتوں میں کشش رکھنے والوں کو اپنی طرف کھینچتی ہیں، باوجود اس کے کہ لاہور کو کئی مرتبہ تباہ کیا گیا، کئی مرتبہ لاہور کو لوٹا گیا، توڑ پھوڑ کی گئی، مٹانے کی کوشش ہوئی لیکن لاہور تعمیر ہوا، لاہور دوبارہ آباد ہوا، دوبارہ زندگی آئی، بار بار کی توڑ پھوڑ کے باوجود بھی لاہور کا حسن آج عروج پر ہے۔
لاہور لوگوں کے ذہنوں پر چھایا ہوا ہے، بعض تاریخ دان تو لاہور کو حیدر آباد دکن، ممبی، دہلی سمیت کئی مشہور شہروں سے بھی پرانا شہر ہے، لاہور کی تاریخ کو دیکھا جائے تو یہ شہر ہمیشہ سے معاشی، ثقافتی اور مذہبی سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے، مختلف بڑے مذاہب سے تعلق رکھنے والے نمایاں افراد کی تحریروں میں لاہور کا ذکر نمایاں ہے، مختلف ادوار میں یہاں جب کبھی کوئی بھی حکمران رہا اور وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو لاہور کو ہمیشہ اہمیت حاصل رہی ہے ، لاہور کی بہت سی تاریخی عمارتیں گرا دی گئیں، لاہور کو نقصان پہنچایا جاتا رہا ہے، قیام پاکستان کے بعد بھی جس انداز میں آثار قدیمہ کی حفاظت ہونا چاہیے تھی ویسے اس اہم ترین شعبے پر کام نہیں ہوا۔ تاریخ کی کتابوں میں یہ بھی ملتا ہے کہ کبھی یہاں مہاتما بدھ بھی رکے ہیں۔
چند سال قبل کیمرج میں لاہور کی تاریخ اور اس تاریخی شہر کی تاریخی عمارتوں کے حوالے سے ایک سیمینار کا انعقاد بھی ہوا تھا، دلچسپ امر یہ ہے کہ اس سیمینار کے انعقاد میں سب سے زیادہ اہم کردار ادا کرنے والے سرنکلس بیرنگٹن تھے، سرنکلس کافی وقت پاکستان میں سفیر رہے ہیں اور لاہور نے ان کے دل و دماغ پر بہت گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔
بی بی سی نے اسے بہت اچھے انداز میں شائع کیا تھا، اس سیمینار میں بات کرتے ہوئے سر نکلس کا کہنا تھا کہ "لاہور ایک بڑا شہر ہے اور یہ جنوبی ایشیا کے ان شہروں میں سے ایک ہے جن میں تاریخی نوادرات کی سب سے زیادہ بہتات ہے، یہ بات برطانیہ میں آج کل لوگوں کو معلوم نہیں ہے کیونکہ وہ وہاں نہیں جاتے ہیں، یہ وہ وقت ہے جب لوگوں کو پاکستان کی خوبصورتی کے متعلق بتایا جائے اور لاہور چونکہ پاکستان کے بڑے مقامات میں سے ایک ہے اس لیے جتنا زیادہ لوگوں کو پتہ چلے اتنا ہی اچھا ہے۔"
سر نکلس نے ان خیالات کا اظہار 2017 میں کیا تھا آج 2024 ہے لاہور کو ماضی کی نسبت سب سے زیادہ توجہ اور تعمیر کی ضرورت ہے۔ لاہور کی تاریخی عمارتوں، باغات اور تاریخی مقامات کو اس کی اصل حالت میں بحال رکھنے کے لیے سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ 1959 برطانوی ماہرین نے جب یہاں کھدائی کی تو کھدائی کے دوران چار ہزار سال پرانے مٹی کے برتن ملے تھے، اسی طرح محلہ مولیاں میں لگ بھگ تین ہزار سال پرانے نو ادارات بھی ملے، مورخین کے نزدیک وہ دور تھا جب ہڑپہ ختم ہو رہا تھا، اس تاریخ کے بعد یہ واضح ہوتا ہے کہ لاہور یہاں پر شروع سے آباد ہے اور یہ ہڑپہ کے دور سے شروع ہوتا ہے۔ شہر میں بڑی تعداد میں تاریخی قلعے نظر آتے ہیں لیکن تاریخی قلعوں کی موجودگی میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا کبھی پاکستان میں مختلف حکومتوں نے ان عمارتوں کو اصل حالت میں بحال رکھنے کے لیے کچھ کام کیا بھی ہے یا نہیں۔
لاہور کے تاریخی شاہی قلعے کو ہی دیکھ لیں تو صورت حال واضح ہو جاتی ہے کہ حکمرانوں کو اس شہر کی تاریخی حیثیت میں کچھ زیادہ دلچسپی نہیں ہے۔ لاہور میں موجود انار کلی کا مقبرہ کبھی سرکاری دفتر اور کبھی سرکاری دفتر کے طور پر بھی استعمال ہونے کے شواہد بھی ملتے ہیں۔
آج اگر دنیا بھر میں لاہور کے دیوانے ہیں تو یہ پسندیدگی بلاوجہ نہیں ہے یہ لاہور کا جادو ہے۔ لاہور مختلف حکومتوں میں طاقت کا مرکز بھی رہا ہے۔ لاہور کی تاریخی حیثیت کو دیکھتے ہوئے یہاں رہنا ایک اعزاز ہے، اس شہر کی خدمت کرنے والے قابل تعریف ہیں۔ کچھ تعمیراتی منصوبوں کی وجہ سے تاریخی عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے اگر حکومت ان منصوبوں کی تعمیر کے وقت شہر کی تاریخی عمارتوں کو بچانے اور انہیں اصل حالت میں بحال رکھنے کے حوالے سے بھی منصوبہ بندی کرے تو یہ زیادہ بہتر ہے۔ جہاں اس شہر کی صدیوں پرانی تاریخ کو دنیا کے لیے پرکشش بنایا جا سکتا ہے وہیں اس جدید شہر کو بھی بہتر ٹاو¿ن پلاننگ کے ساتھ پھیلانا چاہیے۔ کسی بھی منصوبے کی طرف بڑھتے ہوئے کم از کم آئندہ پچاس سال کو سامنے رکھ کر منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔
لاہور کی اہمیت سے نہ تو حکمران واقف ہیں نہ ہی اس شہر کے رہنے والوں کو اندازہ ہے کہ وہ کس تاریخی شہر کے رہائشی ہیں۔ میری رائے میں تو لاہور کی تاریخی حیثیت و اہمیت کو برقرار رکھنے اور اسے ہمیشہ ترجیحی بنیادوں پر دیکھنے کے لیے لاہوریوں کو متحرک ہونا چاہیے۔ لاہور کے شہری اس کے بڑے محافظ ہیں کاش انہیں اندازہ ہو جائے کہ وہ کس تاریخ کا حصہ بن رہے ہیں۔ یقینا آنے والے وقتوں میں آج کے لوگوں کا تاریخ میں ذکر ہو گا جیسے ہم آج گذرے وقت کا ذکر کر رہے ہیں، تاریخی حوالے پیش کر رہے ہیں، دنیا بھر میں لاہور سے محبت کرنے والوں کے خیالات پڑھ کر خوش ہوتے ہیں، انہیں دہراتے اور پھر اپنے قارئین کے سامنے رکھتے ہیں ہمارے بعد آنے والے لاہور کے دیوانے یہ کام کریں گے یوں محبتوں کے یہ سلسلے منتقل ہوتے رہیں گے۔
آخر میں احمد ندیم قاسمی کا کلام
ہیں میرے قلب و نظر، لعل اور گہر میرے
سمیٹ لیں مرے ریزوں کو شیشہ گر میرے
وہ بول ہوں کہ کہیں نغمہ ہوں، کہیں فریاد
وہ لفظ ہوں کہ معانی، ہیں منتشر میرے
مرے نصیب میں بنجر زمیں کی رکھوالی
کنویں اداس مرے، کھیت بے ثمر میرے
خزاں میں ولولہ پر کشائی کس نے دیا
بہار آئی تو باندھے ہیں کس نے پر میرے
وہ پھول توڑتے ہیں، اور میں خار چنتا ہوں
بچھڑتے جاتے ہیں یوں مجھ سے ہمسفر میرے
عجیب دور ہے! بے غم بھی اور بے حِس بھی
کہ میرے درد پہ ہنستے ہیں چارہ گر میرے
جو گل کو دیکھ کے تخلیقِ گل کا ذکر کیا
تو یہ کھلا کہ ارادے ہیں پرخطر میرے
مجھے تلاش ہے اس عدل گاہ کی جس میں
مرے گناہوں کے الزام آئیں سر میرے
ندیم میرے ہنر کے وہ لوگ منکر ہیں
مرے عیوب کو کہتے ہیں جو ہنر میرے