اس سوال کے کافی اسباب ہیں اور یہ سوال ہمارے لیے بے انتہا اہم بھی ہے. کیونکہ ہمارے ملک کی آدمشماری میں 68 فیصد حصہ نوجوانوں کا ہے.
اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ انہیں اپنی بات کہنے کا پورا موقعہ دیا جائے تاکہ وہ اپنا نقطہ نظر کو بیان کر سکیں.کسی بھی شہر، گاؤں یا ملک کی معاشرت اور اس کی تہذیب کی عکاسی وہاں رہنے والے افراد کی زندگی کے اطوار، ان کی سوچ اور ان کے رویوں سے ہوتی ہے. جب معاشرہ اور تہذیب، کلچر اور رہن سہن ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو تو لازمی بات ہے اس سے جڑے رہنے والے انسان کی زندگی کیسی ہو سکتی ہے.
کہا جاتا ہے نوجوانوں میں گمراہی اور بگاڑ تب پیدا ہوتا ہے جب وہ بلوغت اور منشیات کی طرف گامزن ہوتے ہیں. ہر لمحہ نئے تجربات اور تازہ احساسات ان کی سوچ اور فکر کی راہیں متعین کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں. دوسری طرف جذبات کی شدت انہیں درست فیصلے کرنے نہیں دیتی ہے. یہی وہ موقعہ ہوتا ہے. جب کہ آج کے نوجوانوں کو رہنمائی دی جائے. اگر اس وقت انہیں ماں باپ، بزرگوں اور اساتذہ کی توجہ نہ ملے تو ان کی شخصیت میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے.
زیادہ تر آج کا نوجوان طبقہ اتنا زیادہ متاثر ہوا ہے کہ وہ نہ ادھر کے رہے ادھر کے. آج کے نوجوان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے پاس فراريت بہت ہیں. کرنے کو کچھ نہیں. کوئی تعمیری سوچ نہیں، تعلیمی مواقع کم ہیں. ان کی تعلیمی اور معاشی ناکامیاں انہیں مایوس اور نا امید کر دیتی ہیں.
وہ کم حوصلے سے بے عمل ہو جاتے ہیں. اور یوں منفی سوچوں کے باعث اپنی ذمہ داریوں اور اسلام سے دور ہو جاتے ہیں. اس کا حل یہ ہے کہ ان کو ان کی ذہنی صلاحیتوں کے بنا پر عملی طور پر مصروف رکھا جائے. جس سے نہ صرف ان کی سوچ میں تبدیلی آئے گی بلکہ وہ معاشرے کے فعال رکن بن سکیں. اور دوسرا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ رہن کہن کلچر ان کی ذمہ داریوں میں مصروف رکھ رہا ہے. اس کی وجہ ماں باپ اساتذہ اور بزرگوں کی بے جا تنقید ہے. ان کے بڑے انہیں اپنی سوچ اور اپنے زمانے کے حوالے سے دیکھتے ہیں، پرکھتے ہیں.
انہیں اپنی بات کہنے اور رکھنے کا موقعہ نہیں دیا جاتا. جس سے آج کے نوجوانوں میں فرسٹریشن بڑھتی ہے اور وہ اپنے رشتوں سے دور ہوکر خود ہی اور برے فیصلے کرتے ہیں اور پھر ساری عمر بھگتے رہتے ہیں.
ہونا یہ چاہیے کہ ایک دوسرے کی بات تحمل اور کشادہ دلی سے سنی جائے. نوجوانوں کو اپنی بات کہنے کا پورا موقعہ دیا جائے تاکہ وہ اپنا نقطہ نظر بیان کر سکیں. مگر ہوتا یہ ہے کہ انہیں غیر ذمے دار سمجھا جاتا ہے. ان پر اعتبار اور بھروسہ نہیں کیا جاتا، جس سے نوجوانوں کی صلاحیتیں گھر کے سامنے نہیں آتیں. اس لیے بزرگوں کو چاہیے کہ ان کی دوریوں کو مٹائیں اور ان کی اصلاح کے ساتھ ان کی حوصلہ افزائی بھی کریں.
اس کے علاوہ آج کے نوجوانوں کا ایک یہ بھی مسئلہ بن گیا ہے کہ سوشل میڈیا ایک ایسا نشا بن چکا ہے جس کے نہ ملنے پر آج کا نوجوان اپنی فیملی اور رشتہ داروں سے دور ہے. اپنی صحت اور تعلیم سے محروم ہوتا ہے. زیادہ سے زیادہ سوشل میڈیا میں وقت ضائع کرتے ہیں.
ہمیں اپنے گلشن کے پھولوں کی ترقی اور خود تازہ ہوا بہتر ماحول کا بندوبست کرنا ہوگا. کیونکہ نوجوانوں سے ہی ہماری کل کی پہچان اور مستقبل وابستہ ہے.