امریکا نے اس بات کی ترید کی ہے کہ تقریباً20 سالوں تک افغان جنگ لڑنے کےبعد انخلا کے وقت اس نے ایسا کوئی اسلحہ یافوجی سازو سامان افغانستان میں نہیں چھوڑا جو تحریک طالبان کے زیر استعمال ہو۔
واشگٹن ڈی سی میں پریس بریفنگ کے دوران امریکی نیشنل سکیورٹی کو نسل کے ترجمان جان کربی کا کہنا تھاکہ افغانستان سے انخلا کے وقت چند جہاز اور معمولی سامان ایئرپورٹ پر چھوڑا گیا جو قابلِ استعمال حالت میں نہیں تھا۔
پریس بریفنگ میں ایک پاکستانی صحافی نے جان کربی سے سوال کیا کہ امریکی افواج کے انخلا کے وقت افغانستان میں چھوڑا گیا سات ارب ڈالر کا اسلحہ تحریک طالبان پاکستان، داعش اور القاعدہ کے جنگجوؤں کے ہاتھ لگاچکا ہے۔
جس پر جان کربی کا کہنا تھا کہ انخلاکے وقت جو چیزیں افغانستان میں ایئرپورٹ پر چھوڑیں وہ چند ٹَگ مشینیں اور آگ بجھانے کے آلات تھے، اوران کو اس لئے چھوڑ گیا کہ طالبان کو ضرورت ہو سکتی تھی۔
ترجمان جان کربی نے بتایا کہ جس فوجی سازوسامان یا آلات کی بات کی جارہی ہے وہ انخلا سے بہت پہلے امریکا کی جانب سے افغان افواج کے حوالے کیا جاچکا تھا،اور افغان افواج کو یہ اسلحہ ان کی تربیت کے مشن کے تحت حوالے کیاگیا تھا۔
ان کا کہنا تھا جب طالبان نے کابل اور افغانستان کے دیگر شہروں میں پیش قدمی کی تو افغان نیشنل فورسز نے امریکی اسلحہ اسی طرح چھوڑ دیا، امریکی افواج نے ایسا نہیں کیا۔
ان سے یہ بھی سوال کیا گیا کہ چندماہ قبل صدر بائیڈن نے پاکستان کے بارے میں کہا تھا کہ خطرناک ترین ملک ہے جس کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں، تو ان کے پاس ایسے کیا خدشات ہیں؟
ترجمان جان کربی نے جواب دیا کہ ہم جانتے ہیں کہ پاکستان کے عوام دہشت گردی کے خطرے کا شکار ہیں، خاص طور پر افغانستان کے ساتھ سرحدی علاقوں میں، اور اس حوالے سے امریکا پاکستان کیساتھ کام جاری رکھے گا،اور یہ (تعاون) یقینی طور پر اسی حد تک ہوگا جس سے پر وہ راضی ہوں گے۔ کیونکہ پاکستان کے عوام کو لاحق یہ خطرہ معمولی نہیں اور صدر بائیڈن اس کو سمجھتے ہیں، اور وہ پاکستان کیساتھ ملکر کام جاری رکھنے کے عزم پر قائم ہیں۔