انسان اور وسائل معیشت دونوں مل کر قرعہ ارض کے معروضی تقاضوں کی تکمیل کا اہتما م کرتے ہیں۔ دونوں کے جوہر کو جلا دینے سے طبعی تقاضے پورے ہوتے ہیں ۔ترقی کے راستے کھلتے ہیں ۔انہی کے باہمی ٹکراؤ سے اشیاء خدمات وجود میں آتی ہیں۔ جن میں دونوں کا تشخص برقرار رہتا ہے ۔جہاں یہ عمل بروئے کار آتا ہے ۔ اسی کو معاشر ہ کہتے ہیں ۔ وسائل اشیاء میں تحلیل ہوجاتے ہیں ،جبکہ خدمات انسانی جوہر کے عملی مظہر کے طور پر کام کرتی ہیں ۔یہی اشیاء و خدمات انسان کی ترقی کا زینہ بنتی ہیں ۔ دونوں کے درمیان ایک ربط موجود ہے ۔ جسے روح کہتے ہیں ۔ جس کا تقاضا ہے کہ دونوں کے میل ملاپ کا عمل جاری رہے ۔ اسی سے اشیاء و خدمات کی نئی نئی نوعتیں وجود میں آتی ہیں ۔ جس سے معاشرے میں تناؤ پید ا ہونے کی بجائے فروغ حاصل ہوتا ہے ۔کیونکہ وسائل اور انسان دونوں مل کر تخلیقی عمل کا حصہ بنتے ہیں ۔ انسانی جوہر کو جلا ملنے سے اس کے نوعی و طبعی تقاضے پروان چڑھتے ہیں ۔ وسائل کی منتہائے مقصود انسانی حاجات کی تشفی اور تسکین ہے ۔ اس عمل کو جاری رکھنے کےلئے ایک ادار تی طریقہ کار کی ضرورت پڑتی ہے، اسی حکمت عملی کا نام سماج ہے ۔ جہاں جملہ وسائل اور انسان باہم مل کر اس عمل کا حصہ بنتے ہیں ۔
انسانوں کی معقول تعداد جہاں مل جل کر زندگی گزارتی ہے خاندان یا معاشرہ کہلاتا ہے ۔ ہر انسان کے ساتھ ایک مشین لگی ہوئی ہے جو اسے فارغ چھوڑنے کی بجائے مصروف عمل رکھتی ہے ۔ اس کااندرونی نظام ایک خود کار طریقہ کار کے تحت چلتا ہے ۔ جس کے بروئے کار آنے سے ایک کیفیت پیدا ہوتی ہے ۔ جسے بھوک کہتے ہیں ۔ جو کھانے پینے کا تقاضا کرتی ہے ۔ انسانی اعضا ء ،دل دماغ اور ہاتھ پاؤں انکھوں کی رہنمائی میں اس کیفیت کی تسکین کا اہتمام کرتے ہیں۔ ان عضا ء کا باہمی ٹکراؤ کوئی مادی چیز پیدا نہیں کرتا ۔ انہیں اپنی اندرونی طاقت اور قوت یعنی جوہر انسانی کے اظہار کے لئے مادی وسائل درکار ہوتے ہیں۔ کارخانہ قدرت میں جن کا وافر مقدار میں ذخیرہ موجود ہے ۔ ابتدا میں انسان نے حیوانی طاقت کی مد د سے حاجات کی تسکین کرنے والی اشیاء و خدمات پیدا کرنا شروع کیں ۔ زمین میں موجود ظاہری و مخفی مادی وسائل کو بروئے کار لا نے کا عمل شروع ہو گیا ۔انسانی آبادی وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی گئی ۔ مادی وسائل کو بروئے کار لانے کے عمل میں بھی تیزی اور ترقی ہوتی گئی ۔ ابتدائے افرینش سے حیوان پیدائش دولت کے عمل میں انسان کا شریک سفر تھا ۔ اس کی حاجات کی تسکین کا ا ہتمام ہو نے لگا ۔ سماجی ترقی نے انسانی جدوجہد میں حیوان کو مشین سے تبدیل کردیا ہے ۔ سارے کام جو انسان کے لئے مشکل اور حتی کہ حیوان کے لئے ناممکن تھےمشین نے نہ صرف ممکن بلکہ آسان کردئیے ہیں۔
روزگار کے معنی ذریعہ معاش ،شغل ،کاروبار ، نوکری ، اور دھندا وغیرہ ۔
انسانی زندگی کو قائم و دائم اور برقرار رکھنے کے لئے کل خوراک فراہم کرنے والی جملہ مسلسل سر گرمیاں روزگار کہلاتی ہیں۔
بے روزگاری
بے روزگاری سے مراد؛ افرادی قوت کی ایسی تعداد جو کام کرنے کی عمر کو پہنچنے کے باوجود ایسے مواقعوں سے محروم رہیں جو پیدائش دلت کے عمل میں شریک ہوسکیں ۔( اقوام متحدہ کے ادارے "تنظیم برائے تعاون و معاشی ترقی ")
بے روزگاری سے مراد ؛ ایک ایسی صورت حال جس میں انسان مسلسل چار ہفتوں تک حتی المقدور کوشش کے باوجود روزگار حا صل نہ کرسکے۔ (آئی ایل او )
پاکستان کی معاشی صورت حال گذشتہ کئی سالوں سے اپنے بدترین اور پست ترین حدوں کو چھو رہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کا ریاستی اداروں پر اعتماد ختم ہوچکا ہے ۔ کاروباری سرگرمیاں معطل ہوچکی ہیں ۔ حکومت کے پاس حالیہ معاشی بحران سے نکلنے کا کوئی لالحہ عمل نہیں ہے ۔ کیونکہ اگر کوئی پروگرام یا حل ہوتا تو اس کی کوئی نہ کوئی عملی شکل نظر آتی ۔ حکومت عوام کے ٹیکسوں سے وصولیاں کرکے اپنے اخراجات پورے کر تی ہے۔ وصولیوں کے لئے ملک میں کاروباری سرگرمیاں ناگزیر ہوتی ہیں ۔اس کے بغیر حکومت اپنے اخراجات پورے نہیں کرسکتی ۔ دوسری صورت میں عوام یا مرکزی بینک سے قرض لینے پر مجبور ہوتی ہے ۔یہی مجبوری حکومت کی نااہلی شمار ہوتی ہے ۔ آج حکومت اسے چھپانے کےلئے براہ راست ٹیکس لگا نے پر مجبور ہے ۔مثلا پیٹرول ،گیس ،بجلی جیسی بنیادی ضرورتوں پر ٹیکس کا بھوج بڑھا یا جا رہا ہے ۔ ان مدات پر ٹیکس بڑھانے کے معنی کہ حکومت کی دیگر مدات سے وصولیاں معدوم ہوچکی ہیں۔ جس کےباعث روزمرہ کی زندگی ناقابل برداشت حد تک عوام کی دسترس اور پہنچ سے باہر ہوتی جارہی ہے ۔حکومت جسے عوام کا خیر خواہ ہونا چاہیے وہی عوام کے معاشی قتل میں ملوث ہے ۔
کاروباری سرگرمیاں ماند پڑنے کے معنی ہیں پیدائش دولت کا عمل کھٹائی میں پڑ چکا ہے ۔ انسانی وسائل کو بروئے کار لا کر مادی وسائل کی شکلیں تبدیل ہونے کا عمل معدوم ہو چکا ہے۔ افرادی قوت کو اپنی صلاحتوں کے اظہار کے لئے مواقع دستیاب نہیں ہیں ۔ مادی وسائل کو بروئے کار لانے کا عمل پس پشت ڈال دیا گیا ہے ۔ قدرت کی آواز کو در خور اعتنا ء ہی نہیں سمجھا جا رہا ہے
۔ عالمی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق افرادی قوت کی نوعیت کچھ یوں ہے ؛
ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق 2023کے آخر میں پاکستان کی کل آبادی 24کروڑ 15 لاکھ ہے ۔ جس میں کام کرنے والی آبادی 7کروڑ نواسی لاکھ 9ہزار 4 سو 56 افراد پر مشتمل ہے ۔ درجہ بندی کے اعتبار 15سال سے زائد عمر کے افراد کام کرنے کے اہل شمار ہوتے ہیں۔ ذرایع کا مزید کہنا ہے کہ افرادی قوت کا 37.54 فیصد زراعت سے وابستہ ہے۔ جبکہ 25.18 فیصد صنعت سے اور 37.28فیصد سروسز سیکٹر میں مصروف عمل ہے ۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 2023کے دوران 56لاکھ افراد بے روز گار ہوچکے ہیں ۔
بے روزگار ہونے والوں کا تعلق زیادہ تر سروسز سیکٹر اور صنعت سے ہوتا ہے ۔ کیونکہ زراعت سے متعلقہ افرادی قوت جلد متا ثر نہیں ہوتی ۔ اس کے پیداواری عمل کا سائیکل سب سے طویل ہوتا ہے ۔ جب کہ صنعت و حرفت کی سرگرمیوں کا سائیکل زراعت سے طویل نہیں بلکہ چھوٹا اور مختصر ہے ۔ لہذا اس کے مخدوش ہونے سے پیدا ئش دولت کا عمل جلد متاثر ہوجاتا ہے ۔اس سے الائیڈ شعبے بھی متاثر ہوجاتے ہیں۔ اس لئے سروسز سیکٹر متاثر ہوتا ہے ۔