اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کا کہنا ہے کہ طالبان نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغانستان کے بارے میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ہونے والے اجلاس میں شرکت کے لیے ناقابل قبول شرائط رکھی ہیں۔
پیر کے روز ایک نیوز کانفرنس میں گوتریس نے کہا کہ مجھے طالبان کی طرف سے ایک خط موصول ہوا جس میں اس میٹنگ میں شرکت کے لیے کچھ شرائط موجود تھیں جو قابل قبول نہیں تھیں۔
عرب خبر رساں ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق دو روزہ اجلاس جو پیر کو دوحہ میں ختم ہوا اس میں رکن ممالک اور بین الاقوامی سفیروں نے افغانستان کو درپیش مسائل پر بات چیت کی لیکن طالبان نے شرکت نہیں کی کیونکہ ان کے مطالبات پورے نہیں ہوئے۔
بین الاقوامی برادری اور طالبان کے درمیان تنازع کا سب سے بڑا نکتہ خواتین اور لڑکیوں پر عائد پابندیاں ہیں۔
جب سے طالبان حکومت نے دوبارہ اقتدار سنبھالا ہے اس نے خواتین کو گھر سے نکلتے وقت پردہ کرنے کا حکم دیا ہے، لڑکیوں اور خواتین کو ہائی سکول اور یونیورسٹی جانے سے روک دیا ہے۔
طالبان کا اصرار ہے کہ پابندیاں گھریلو معاملہ ہیں اور تنقید کو بیرونی مداخلت کے طور پر مسترد کرتے ہیں تاہم سربراہ اقوام متحدہ نے کہا کہ پابندیوں کو منسوخ کرنا ضروری ہے۔
تنازعہ کا ایک اور نکتہ ملک میں اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی کی تقرری ہے جس کی طالبان مخالفت کرتے ہیں۔
پیر کو گوتریس نے کہا کہ طالبان کے ساتھ واضح مشاورت کی ضرورت ہے تاکہ ایلچی کے کردار کی وضاحت ہو اور یہ طالبان کے نقطہ نظر سے اسے پرکشش بنانے کے لیے کون ہو سکتا ہے، مشاورت کا حصہ بننا طالبان کے مفاد میں ہے۔
بہت سی حکومتوں، بین الاقوامی تنظیموں اور امدادی ایجنسیوں نے طالبان کی پالیسیوں کے جواب میں افغانستان کے لیے اپنی مالی امداد منقطع کر دی ہے یا اس میں کمی کر دی ہے جس سے ملک کی معیشت کو شدید دھچکا لگا ہے۔
گوتریس نے کہا کہ ہمارا ایک بنیادی مقصد اس تعطل پر قابو پانا ہے، ایک روڈ میپ بنانے کی ضرورت ہے جس میں عالمی برادری کے خدشات اور افغانستان کے ڈی فیکٹو حکام کے خدشات کو مدنظر رکھا جائے۔