سپریم کورٹ نے تحریک عدم اعتماد پر اسپیکر رولنگ کیس میں عدالتی فیصلے کے خلاف سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی نظر ثانی درخواست خارج کر دی جبکہ کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ جہاں آئین کی خلاف ورزی ہوگی وہاں سپریم کورٹ پارلیمنٹ کا معاملہ دیکھ سکتی ہے۔
پیر کے روز سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں جسٹس منیب اختر، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بینچ نے تحریک عدم اعتماد پر اسپیکر رولنگ کے فیصلے کیخلاف صدر دیگر کی نظرثانی درخواستوں پر سماعت کی۔
سماعت کے دوران بانی پی ٹی آئی کی جانب سے سپریم کورٹ سے درخواست واپس لینے کی استدعا کی گئی جبکہ سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے وکیل نعیم بخاری عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے جن سے جسٹس منصور نے استفسار کیا کہ کیا آپ کیس چلانا چاہتے ہیں؟ آپ اکیلے رہ گئے ہیں، جس پر وکیل نعیم بخاری نے مسکراتے ہوئے سوال کیا کہ کیا میں بھی چلا جاؤں؟، نعیم بخاری کے سوال پر کمرہ عدالت میں قہقے لگ گئے۔
نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ لوگ اکثر میری حس مزاح کو غلط سمجھ لیتے ہیں جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میں نہیں سمجھوں گا۔
نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ لوگ تو اب مجھے جنازوں پر بھی نہیں بلاتے، کہتے ہیں کہیں مردہ زندہ ہوکر لطیفہ سنانے کا نہ کہہ دے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ آپ اب کیا چاہتے ہیں؟ جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ چاہتا ہوں ڈپٹی اسپیکر رولنگ کا عدالتی فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے، عدالت پارلیمنٹ کے معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتی، جسٹس منیب اختر کے سوالات خوش آئند لیکن خوفناک ہوتے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ مجھے سوال پوچھ تو لینے دیں ، آپ پہلے ہی ڈرا رہے ہیں، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر محض افسران نہں ، اختیارات عام نہیں ہوتے جبکہ جسٹس منصور نے ریمارکس دیئے کہ قانون دکھائیں جس کے تحت اسپیکر یا ڈپٹی اسپیکر کو اختیارات ملے۔
یہ بھی پڑھیں۔ چیف جسٹس کا ارشد شریف قتل کیس کی جلد سماعت کا عندیہ
جسٹس منصور علی شاہ نے وکیل سے مکالمہ کیا کہ آپ آرٹیکل 69 دو سے آگے نہیں بڑھ پا رہے جبکہ جسٹس جمال نے ریمارکس دیئے کہ رولنگ یہ ہونا چاہئے تھی کہ تحریک عدم اعتماد پر کارروائی 7 دن میں مکمل ہو، یہ غلط فہمی پیدا کی گئی کہ عدلیہ پارلیمنٹ کے امور میں مداخلت نہیں کر سکتی، جہاں آئین کی خلاف ورزی ہوگی وہاں سپریم کورٹ پارلیمنٹ کا معاملہ دیکھ سکتی ہے۔
نعیم بخاری نے کہا کہ آرٹیکل 69 کی ذیلی شق دو کے تحت اسپیکر ذاتی اقدام کا جواب دہ نہیں۔
جسٹس منیب نے ریمارکس دیئے کہ ہم نظرثانی سن رہے ہیں، یہ نکتہ کسی آزادانہ کیس میں اٹھائیں، تسلی رکھیں کہ فیصلہ اسپیکر یا ڈپٹی اسپیکر کی ذات کے خلاف نہیں۔
بعدازاں، عدالت عظمیٰ نے فیصلے کے خلاف اسد قیصر کی نظر ثانی درخواست خارج کردی۔
سپریم کورٹ کی جانب سے کہا گیا کہ ڈپٹی اسپیکر رولنگ فیصلے کے خلاف نظرثانی کی کوئی بنیاد نہیں بنتی۔