چیف جسٹس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ صرف تقریر پر جج کو ہٹایا جائے تو آدھی عدلیہ گھر چلی جائے۔ کئی جج بار کونسلز میں تقاریر کرتے ہیں، تقریر کا متن کیا تھا اس کو دیکھنا ہوگا۔
سپریم کورٹ نے سابق جج اسلام آباد ہائیکورٹ شوکت صدیقی برطرفی کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔ چیف جسٹس فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ سماعت کی۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ امریکہ میں ججز انٹرویو بھی دیتے ہیں، امریکا میں سپریم کورٹ ججز مباحثوں میں بھی حصہ لیتے ہیں، مسئلہ شوکت عزیز صدیقی کی تقریر میں اٹھائے گئے نکات کا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ بھی اس کیس کو سن رہی ہے اب وہ بھی اس میں شامل ہے، اس معاملے میں سپریم جوڈیشل کونسل بھی شامل ہے وہ بھی آئینی ادارہ ہے، یہ عدلیہ کی آزادی کا معاملہ بھی ہے، پوری قوم کی نظریں ہم پر ہیں یہ دو تین آئینی اداروں کا معاملہ ہے۔
دوران سماعت وکیل فیض حمید خواجہ حارث نے کہا کہ اس معاملے کے دو الگ الگ پہلو ہیں، ایک پہلو یہ ہے کہ شوکت صدیقی نے پبلک میں تقریر کی، چیف جسٹس نے کہا کہ یہ آپ بھی مانتے ہیں کسی ٹھوس وجہ کے بغیر جج کو ہٹایا نہیں جانا چاہیئے۔
شوکت عزیز صدیقی کے وکیل حامد خان نے کہا کہ فیض حمید الزامات کی تردید کر رہے ہیں، یہی ہمارا کیس ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کو پہلے انکوائری کروانا چاہیئے تھی، انکوائری میں ہمیں فیض حمید پر جرح کا موقع ملتا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل کہہ چکے حقائق کی انکوائری نہیں ہوئی، اب بتائیں کیا تجویز کرتے ہیں، کارروائی کیسے چلائیں، حامد خان نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی غیر قانونی قرار دیں، چیف جسٹس نے کہا کہ اگر شوکت صدیقی کے الزامات سچے نہیں تو کیا ہوگا؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ شوکت صدیقی جو کہہ رہے ہیں مخالف فریق اسے جھٹلا رہے ہیں، کون سچا ہے کون نہیں، یہ پتہ لگانے کیلئے کیا کرنا ہوگا؟ ہمیں مسئلے کا حل بھی ساتھ ساتھ بتائیں۔
وکیل حامد خان نے کہا کہ شوکت صدیقی کے خلاف پہلی کارروائی کو کالعدم قرار دیا جائے، اس کے بعد اس معاملے پر کمیشن بنا کر انکوائری کرائی جائے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا یہ معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل کو واپس بھیجا جا سکتا ہے؟ حامد خان نے کہا کہ جی ، معاملہ واپس کونسل کو بھیجا جا سکتا ہے۔
آج کی سماعت کا حکمنامہ جاری
سپریم کورٹ نے سابق جج اسلام آباد ہائی کورٹ شوکت صدیقی برطرفی کیس کی آج کی سماعت کا حکمنامہ جاری کردیا۔ حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ عدالتی کارروائی کے دوران اٹھائے گئے سوالات پر فریقین تحریری جوابات جمع کرائیں۔
عدالت نے وکلاء سے پوچھا ہے کہ کیا جوڈیشل کونسل نے انکوائری کی؟ اگر انکوائری آئین و قانون کے تحت نہیں ہوئی تو اس کا کیا نتیجا ہو گا، شوکت عزیزکی عمر 30 جون 2021 کو 62 سال مکمل ہو چکی، شوکت عزیزکی اپیل اب منظور ہوئی تو کیا ریلیف دیا جا سکتا ہے؟
کیا سپریم کورٹ سپریم جوڈیشل کونسل کو معاملہ دوبارہ بھیج سکتی ہے، اگر کونسل کارروائی کی ضرورت نہیں توکیا شوکت صدیقی کی تقریربذات خود کوڈ آف کنڈکٹ کیخلاف نہیں۔
وکلا کو عدالتی سوالات پر جواب کیلئے تین ہفتے دے دیئے گئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ فیصلہ محفوظ ہے جوابات کا جائزہ لیکرضروری سمجھا تودوبارہ عدالت بیٹھ سکتی ہے۔
حکمنامے میں مزید کہا گیا ہے کہ جنرل (ر)فیض حمید اور بریگیڈیئر عرفان رامے کو نوٹس دیا گیا، خواجہ حارث پیش ہوئے اور جوابات جمع کرائے، جوابات میں الزامات کا جواب دیا گیا، سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے بھی اپنا جواب جمع کرایا، سابق رجسٹرار سپریم کورٹ ارباب عارف نے بھی جواب جمع کرایا۔