سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ یہ بہت اہم نقطہ ہے، اگر الیکشن کمیشن نے مذہبی اقلیتوں کی ووٹر لسٹیں جاری نہیں کیں تو اصولی طور پر الیکشن کمیشن کے پاس اسکا جواز ہونا چاہیے ۔ کنور دلشاد کے سامنے جب یہ نقطہ رکھا گیا تو انہوں نے کہا کہ میں الیکشن کمیشن سے اس معاملے میں بات کے بعد ہی کوئی موقف دے سکتے ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان سے رابطے کے بعد ’کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ ’الیکشن کمیشن کے مطابق ہم نے مذہبی اقلیتوں کے رجسٹرڈ ووٹر لسٹیں بھی تیار کیں ہیں ۔اگر کسی مذہبی اقلیت نے انتخاب لڑنا ہے تو ہم اس کے ساتھ تمام اعدد وشمار شئیر کر دئے جائیں گے۔
ایک صحافی ہونے کے ناطے کنور دلشاد سے سوال کیا ،کیا یہ درست ہے کہ انتخابات کےلئے ووٹرز لسٹ سب سے اہم ہوتی ہے ۔کیا مذہبی اقلیتوں کو 8فروری کو ہونے والے انتخابات سے پہلے یہ جاننے کا حق نہیں کہ ایک حلقہ میں انکا کتنا ووٹ رجسٹرڈ ہے؟۔’’اس کے بارے میں انکا کہنا تھاآئین کے مطابق مخلوط طریقہ انتخاب ہے اس لئے ووٹزر کو اس کے بارے میں ضرور علم ہونا چاہیے کہ انکا ووٹ کس حلقے میں رجسٹرڈ ہے۔اگر 2022میں مذہبی اقلیتوں کے لئے رجسٹرڈ ووٹوں کی تفصیل پبلیش کی جا سکتی ہیں میرا نہیں خیال کہ چند ماہ بعد مزید نادارا سے درکارمعلومات کے بعد نئی لسٹیں بھی بنانے میں کوئی مسئلہ ہو سکتاہے‘‘۔
پاکستان کے 5عام انتخابات 1985،1988،1990،1993اور1997ء میں جد اگانہ طریقہ انتخاب کی مشق کی گئی تھی۔ان انتخابات میں استعمال شدہ ووٹر فہرستوں میں واضح طور پر مسلم اور غیر مسلم کے کالم الگ الگ تھے۔2002کے انتخابات میں اس نظام کو ترک کر دیا گیا تھا۔رائے دہندگان کی فہرستوں میں رائے دہندگان کی شناخت مسلم کی بنیاد پر نہیں ہو سکتی (یہ احمدیوں کےلئے)۔عمومی طور پر الیکشن کمیشن ہر رائے دہند ہ کا مذہب تحریر کر سکتی ہے کیونکہ انکا انداراج نادرا کے ذریعے ہوتا ہے مگر یہ دستاویز سب کے لئے تیار نہیں کی گئی۔ہر حلقہ کے غیر مسلم رائے دہندگان کی تعداد دستیاب نہیں ہے۔
مذہبی اقلیتوں کی جانب سے قانون ساز اسمبلیوں میں غیر مسلم نشستوں کی تعداد میں اضافے کے مطالبے پر حکومتی اداروں سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کی توجہ مرکوز کروائی جاتی رہی ہے۔ اس سلسلے میں عام انتخابات کے بعد نئی قانون ساز اسمبلی میں مذہبی اقلیتوں کی نشستوں کی تعداد کے حوالے سے متعدد بار بل بھی پیش کیے گئے۔ 2013 میں ڈاکٹر رمیش کمار نے آئین میں ترمیم کا بل پیش کیا جس میں آبادی کے تناسب سے اقلیتوں کی مخصوص نشستوں میں اضافے کا مطالبہ کیا گیا۔ بعد ازاں اس بل کو متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا۔ آئین پاکستان کے مطابق تمام اسمبلیوں میں اقلیتوں کی مخصوص نشستوں میں اٖضافہ ان کی آبادی کے تناسب کو دیکھ کر کیا جائے گاڈیجیٹل مردم شماری کے بعد بھی اقلیتوں کی مخصوص نشستوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوا جبکہ اب تو ٹرانسجینڈ ر بھی مخصوص نشست کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
آئین پاکستان اور الیکشن ایکٹ2017 کیا کہتا ہے ؟
آئین کے آرٹیکل 51 کے مطابق "قومی اسمبلی میں غیر مسلموں کے لیے 10 نشستیں مخصوص کی گئیں"۔ اس شق کی مزید وضاحت کے لیے آئین میں لکھا گیا ہے کہ "قومی اسمبلی میں نشستیں سرکاری طور پر شائع شدہ آخری مردم شماری کے مطابق آبادی کی بنیاد پر ہر صوبے، وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات اور وفاقی دارالحکومت کے لیے متعین کی جائیں گی"۔ اقلیتوں کے لیے الیکشن ایکٹ 2017 میں کی گئی ترامیم کے مطابق اقلیتوں کو مرکزی دھارے میں لانے کے لیے قانون سازی کی گئی تھی۔ ایکٹ کی دفعہ 48 میں مذہبی اقلیتوں کے لیے درج ذیل خصوصی اقدامات اٹھانے کا کہا گیا تھا:پہلا، انتخابات کے لیے اقلیتوں کی انتخابی فہرستوں میں معذور افراد اور ٹرانس جینڈر شہریوں کی رائے دہندگان کی حیثیت سے رجسٹریسن کے لیے خصوصی اقدامات کیے جائیں۔دوسرا، مذہبی اقلیتوں میں موجود معذور افراد اور ٹرانس جینڈر کے قومی شناختی کارڈ بنائے جائیں اور ہدایت کی گئی کہ نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی اس کام کو جلد از جلد مکمل کرے۔تیسرا،انتخابی حلقوں میں مردوں اور عورتوں کے ووٹوں کی شرح کا اندراج تو موجود ہے جبکہ قومی اسمبلی کے کس حلقے میں اقلیتی مردوں اور عورتوں کے کتنے ووٹ ہیں، یہ اعدادوشمار حلقہ وار رجسٹرڈ ووٹرز کی لسٹ میں شامل کیے جائیں۔
ماضی کے 9انتخابات میں اقلیتوں کے ووٹوں کا تناسب کیا رہا؟
2018 کے جنرل الیکشن میں اقلیتوں کے رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 36 لاکھ 31 ہزار 471 تھی۔ گزشتہ 37 سالوں اور 9 جنرل الیکشنز میں مذہبی اقلیتوں کے ووٹوں کا تناسب دیکھا جائے تو 26 لاکھ 46 ہزار 133 رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ 1985 کے عام انتخابات میں اقلیتوں کے 9 لاکھ 85 ہزار 338 ووٹ رجسٹرڈ تھے۔ اس انتخاب میں مسلم امیدواروں کے ساتھ ساتھ اقلیتی برادری نے بھی اپنے اپنے امیدواروں کو ووٹ کاسٹ کیے تھے۔ 1985 کے عام انتخابات میں ملک بھر میں کل رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 3 کروڑ 43 لاکھ 96 ہزار 661 تھی۔
اسی طرح 2018 کے عام انتخابات میں کل رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد 10 کروڑ 59 لاکھ 55 ہزار 409 تھی جبکہ الیکشن میں اقلیتی ووٹوں کا تناسب 3.8 فیصد تھا۔ گزشتہ 9 انتخابات میں اقلیتوں کے ووٹوں کے تناسب میں صرف 0.5 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن چمن لال نے بتایا کہ اصل مسئلہ نیشنل ڈیٹا بیس میں رجسٹریشن کا ہے جس پر نہ تو حکومت اور نہ ہی مذہبی اقلیتوں کے فلاحی ادارے توجہ دے رہے ہیں۔ووٹر لسٹ اسی وقت بن جانی چاہی جن شناختی کارڈ بنتا ہے۔شناختی کارڑ کا ریکاڈ الیکشن کمیشن کے پاس ہوتا ہے پھر بھی ووٹر لسٹوں کا منظر عام پر نہ آنا حیران کن ہے۔
2023 میں کی گئی مردم شماری کے بعد ہمارے رجسٹرڈ ووٹوں میں کتنا اضافہ ہوا کچھ معلوم نہیں ۔مثال کے طور پر گزشتہ الیکشن 2018 کے اعدادوشمار کے مطابق ہندو ووٹروں کی تعداد تقریباً 18 لاکھ تھی جو 2013 کی انتخابی لسٹوں کے مقابلے میں تقریباً ساڑھے 3 لاکھ زیادہ تھی۔
2022 میں مذہبی اقلیتوں کے کل رجسٹرڈ ووٹ کتنے تھے؟
2022 میں اقلیتوں کے رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 39 لاکھ 56 ہزار 336 تک پہنچ گئی ہے۔ ملک بھر میں ہندو ووٹرز 20 لاکھ 73 ہزار 983 جبکہ مسیحی 17 لاکھ 3ہزار288 ہیں اور باقی اقلیتوں کے ووٹ 1 لاکھ 74 ہزار 165 ہیں۔ جس میں مردوں کے رجسٹرڈ ووٹ 21 لاکھ 52 ہزار 143 ہیں جبکہ خواتین کے رجسٹرڈ ووٹ 18 لاکھ 41 ہزار 193 ہیں۔
اعدادوشمار کے مطابق ملک میں سب سے زیادہ اقلیتوں کے رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد صوبہ سندھ میں ہے جس میں مذہبی اقلیتوں کے کل ووٹوں کی تعداد 22 لاکھ 17 ہزار 141 اور ہندو ووٹرز کی تعداد 19 لاکھ 36 ہزار 7449 جبکہ مسیحی ووٹرز کی تعداد 2 لاکھ 54 ہزار 731 اور دیگر اقلیتی ووٹرز کی تعداد 25 ہزار661 ہے۔ دوسرے نمبر پر پنجاب میں کل اقلیتی ووٹرز کی تعداد 16 لاکھ 41 ہزار 838 ہے۔ یہاں مسیحی برادری کا ووٹ بینک 13 لاکھ 99 ہزار 468 ہے جبکہ ہندو کمیونٹی کے ووٹرز کی تعداد 1 لاکھ 3 ہزار 658 جبکہ دیگر اقلیتی ووٹرز 1 لاکھ 38 ہزار 709 ہیں۔ بلوچستان میں اقلیتی رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 51 ہزار 245 ہے جن میں سے ہندو ووٹرز کی تعداد 28 ہزار 551 جبکہ مسیحی ووٹرز 20 ہزار 761 اور دیگر اقلیتی ووٹرز 1 ہزار 933 ہیں۔ کے پی کے میں کل اقلیتی ووٹرز کی تعداد 46 ہزار 115 ہے جن میں سے مسیحی ووٹرز کی تعداد 33 ہزار 328 جبکہ ہندو ووٹرز 5 ہزار 25 اور دیگر اقلیتوں کے ووٹ 7 ہزار 762 ہیں۔ اسلام آباد میں کل اقلیتی ووٹرز کی تعداد 41 ہزار 9 سو 77 ہے جن میں سے مسیحی ووٹرز 38 ہزار 744 اور دیگر اقلیتی ووٹروں کی تعداد 3 ہزار 233 ہے۔کے پی کے میں زیادہ رجسٹرڈ ووٹوں میں ضلع پشاور 19 ہزار 749، نوشہرہ 4 ہزار 723، کوہاٹ 30 ہزار 036، خیبر 2 ہزار 314 اور ایبٹ آباد 1 ہزار 951 شامل ہیں۔
2024 انتخابات مذہبی اقلیتوں کی ووٹر لسٹیں غائب
پنجاب الیکشن کمیشن سعید گل کا کہنا ہے کہ مذہبی اقلتیوں کی ووٹر لسٹیں بھی تیار ہیں ۔آئین کے مطابق ملک میں انتخابات چونکہ مخلوط طریقہ انتخاب کے تحت ہوتے ہیں تو اقلیتوں کی الگ سے لسٹ نہ بھی ہو تو اس سے انتخابات پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔سال 2022 میں کی اقلیتی رجسٹرڈ ووٹر لسٹ ملک بھرکے تما م اضلاع میں موجود اقلیتوں کے ووٹر لسٹیں جاری کر دی گئیں ۔
چیئرپرسن، ادارہ برائے سماجی انصاف کے سربراہ پیٹر جیکب کا کہنا ہے کہ ہم نے اس بارے میں الیکشن کمیشن سے رابطہ کیا تو پتہ چلا کہ 2022کے بعد مذہبی اقلیتوں کی نئی ووٹر لسٹ نہیں جاری کی گئی۔ووٹر لسٹ نہ ہونے کی وجوہات میں یہ بتایا گیا کیوں کہ اب ملک میں جد گاانہ انتخاب سسٹم نہیں تو اس کی بھی اتنی ضرورت نہیں۔اس سلسلے میں
تحریک انصاف کے سابق قومی اسمبلی جے پرکاش کا کہنا ہے کہ 2002 میں پرویز مشرف کے دور سے پہلے تمام انتخابات میں اقلیتوں کی الگ سے ووٹر لسٹیں تیار ہوتی تھیں جس سے ہمیں علم ہو جاتا تھا کہ حلقے میں کتنے ووٹ خواتین کے ہیں اور کتنے ووٹ مردوں کے ہیں۔ اس بار انتخابات سے پہلے تو کوئی لسٹ ہی تیار نہیں کی گئی جس میں حلقوں کی تو دور کی بات کس ضلع میں کتنے ووٹ کا اضافہ ہوا کچھ علم نہیں۔
سابق مسیحی ایم این اے اعجاز عالم کا اس بارے میں کہنا ہے کہ میرے خیال میں قومی اسمبلی میں نشستوں کی تعداد میں اضافہ آبادی کے تناسب سے نہیں بلکہ اقلیتی برادری کے لیے ایک مثبت اقدام کے طور پر کیا جانا چاہیے۔ ملک میں ہماری نمائندگی جو کہ ہماری آبادی ہے، اس کے اصل میں اعدوشمار کیا ہیں یہ اہم مسئلہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے رجسٹرڈ ووٹ بھی حقیقت میں کتنے ہیں کوئی علم نہیں۔
اگر آئین پاکستان کی رو سے دیکھا جائے تو ملک کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں مذہبی اقلیتوں کی نشستوں کا تناسب آبادی کے لحاظ سے طے کیا جاتا ہے۔ لہٰذا آبادی میں اضافے کے درست اعدادوشمار کو مقامی سطح پر یونین کونسلز اور نادرا میں درج کروانا اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے شہریوں کی ذمہ داری ہے۔ اسی طر ح اپنا ووٹ رجسٹرڈ کروانا بھی انہی کی ذمہ داری ہے جن قوموں کی نمائندگی کسی جغرافیہ حدود میں کم ہو وہاں خود کےلئے راستے نکالنے ضروری ہو جاتےہیں ۔