بھارت کی دوسری سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں بھارتی حکومت نے ایک اسکیم کا خاتمہ کرتے ہوئے مدرسے میں ریاضی اور سائنس جیسے مضامین پڑھانے والے اساتذہ کو ادائیگیاں روک دیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق بھارتی ریاست اتر پردیش میں حکومت کی جانب سے تنخواہیں روکنے سے 21 ہزار سے زیادہ اساتذہ متاثر ہوئے ہیں۔
دستاویز کے مطابق بھارت نے مارچ 2022ء میں اس اسکیم کی فنڈنگ روک دی تھی لیکن فوری طور پر یہ واضح نہیں ہوسکا کہ ریاستی حکومت نے اب اپنے حصے کی ادائیگی کیوں روک دی ہے۔
ریاست کے مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے سربراہ افتخار احمد جاوید نے خبر رساں ادارے کو بتایا کہ اس اسکیم کو روکنے کا فیصلہ ہمیں وہیں واپس لے جائے گا جہاں سے ہم نے کام کا آغاز کیا تھا، مسلم طلباء اور اساتذہ 30 سال پیچھے چلے جائیں گے۔
رپورٹ کے مطابق مارچ 2016ء میں ختم ہونیوالے مالی سال میں پروگرام کیلئے فنڈز کو تقریباً 3 ارب روپے تک وسعت دینے والے نریندر مودی کے دفتر نے اس حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کیا، بھارت کی وزارت اقلیتی امور نے بھی ای میل کا جواب نہیں دیا۔
افتخار احمد جاوید نے اس حوالے سے وزیراعظم موودی کو خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اتر پردیش میں اساتذہ کو پچھلے 6 سالوں سے اسکیم کی ادائیگیوں میں وفاقی حکومت کا حصہ نہیں ملا، انہوں نے اس فنڈ کی بحالی پر زور دیا ہے۔
ہندو اکثریتی آبادی کے حامل بھارت میں مسلمان بنیادی طور پر اقلیت ہیں اور ایک ارب 42 کروڑ آبادی میں 14 فیصد مسلمان ہیں اور ریاست اتر پردیش کی آبادی کا تقریباً پانچواں حصہ بھی مسلمان اقلیت ہیں، جہاں اس ریاست پر بی جے پی کی حکومت ہے۔
اب تک ریاست سائنس، ریاضی، سماجی علوم، ہندی اور انگریزی جیسے مضامین کے 21 ہزار 200 سے زیادہ مدارس کے اساتذہ کو 3 ہزار روپے کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت کی طرف سے 12 ہزار روپے بھی ماہوار ادا کرتی تھی۔
واضح رہے کہ شمال مشرقی ریاست آسام میں بھی بی جے پی حکومت اپوزیشن اور مسلمان گروپوں کے احتجاج کے باوجود ایسے سینکڑوں مسلم مذہبی اسکولوں اور مدارس کو روایتی اسکولوں میں تبدیل کررہی ہے، جہاں بہت سے مدارس کی مالی اعانت مسلمان برادری کے ارکان عطیات سے کرتے ہیں۔