عدالت عظمیٰ میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کی براہ راست سماعت ہوئی، چیف جسٹس نے فریقین کو 25 ستمبر تک جواب جمع کرانے کی ہدایت کردی، کیس کی سماعت 3 اکتوبر تک ملتوی کردی گئی۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ احتساب اور شفافیت کو یقینی بنانا ہے، چیف جسٹس کو احتساب سے بالاتر بنانا چاہتے ہیں، مجھے اپنے لئے ایسی پاور نہیں چاہئیں، قانون اچھا بنائیں یا نہیں، پارلیمنٹ کی بے توقیری نہیں کریں گے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمنٹ نے چیف جسٹس کا اختیار 2 سینئر ججز کے ساتھ بانٹا، باہر سے تو کوئی نہیں آیا۔
چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں فل کورٹ بینچ میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسجر بل کیس کی براہ راست سماعت ہوئی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس شاہد وحید فل کورٹ کا حصہ ہیں۔
وفاقی حکومت نے تحریری جواب سپریم کورٹ میں جمع کرادیا،جواب میں حکومت نے مؤقف اپنایا کہ پارلیمنٹ کے قانون کیخلاف درخواستیں ناقابل سماعت ہیں،استدعا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواستیں خارج کی جائیں۔
تحریری جواب میں کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ آئین کے آرٹیکل 191 کے تحت قانون سازی کر سکتی ہے۔ آئین کا آرٹیکل 191 پارلیمنٹ کو قانون بنانے سے نہیں روکتا، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے عدلیہ کی آزادی متاثر نہیں ہوتی۔ مذکورہ ایکٹ کے تحت سپریم کورٹ کا کوئی اختیار واپس نہیں کیا گیا،میرٹ پر بھی پارلیمانی قانون کیخلاف درخواستیں نا قابل سماعت ہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ احتساب اور شفافیت کو یقینی بنانا ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر بل سے متعلق درخواست گزار چیف جسٹس کو احتساب سے بالاتر بنانا چاہتے ہیں، مجھے اپنے لئے ایسی پاور نہیں چاہئیں، عوام کے ٹیکس پر چلنے والی عدالت کیا میری مرضی پر چلے گی؟۔
انہوں نے کہا کہ بعض قوانین مجھے پسند نہیں اس کا مطلب یہ نہیں وہ غلط ہیں۔ قانون اچھا بنائیں یا نہیں، پارلیمنٹ کی بے توقیری نہیں کریں گے، اتنا بڑا حملہ ہوتا تو ہم سوموٹو لے چُکے ہوتے۔
خواجہ طارق رحیم نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کے پاس قانون سازی کا اختیار آئین سے مشروط ہے، اچھی چیز غیر آئینی طریقے سے کی جائے تو غلط ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ پارلیمنٹ نے چیف جسٹس کا اختیار 2 سینئر ججز کے ساتھ بانٹا، باہر سے تو کوئی نہیں آیا، اس سے کون سا بنیادی حق متاثر ہوا؟، پارلیمنٹ کا یہ اقدام تو عدلیہ کی آزادی کو مضبوط بنائے گا۔
جسٹس منیب اختر بولے کیا پارلیمان نئے انتظامی اختیارات دیکر سپریم کورٹ کی جوڈیشل پاور کو پس پشت ڈال سکتی ہے؟۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ چیف جسٹس کا اختیار چھیڑنے سے عدلیہ کی آزادی کو خطرے کی کوئی بات نہیں، کیا چیف جسٹس کے لامحدود اختیارات عدلیہ کی آزادی ہے۔
امتیاز صدیقی ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ قانون پارلمینٹ سے ہی آتا ہے اور کہاں سے آنا ہے؟، یہ قانون صرف پارلیمنٹ سے نہیں ہوسکتا، فل کورٹ ہی کرسکتا ہے
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریکوڈک کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے 184۔3 کے تحت ریکوڈک کا معاہدہ اڑا دیا، فیصلے سے عدالت عظمیٰ کو نہیں بلکہ ملک کو 6.5 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔
اٹارنی جنرل کے دلائل
اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئےکہاکہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ اس ادارے میں شفافیت لایا، یہ قانون خود عوام کے اہم مسائل حل کرنے کیلئے ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ قانون کے ذریعے سارے اختیارات عدالت کے اندر ہی رکھے گئے، یہ درست ہے کہ عدلیہ کی آزادی ہر شہری سے متعلقہ ہے۔
اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستیں قابل سماعت نہیں۔ منصور عثمان نے ایکٹ 1935ء، 1956ء اور 1962ء کے آئین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 1962ء کا آئین سپریم کورٹ رولز کو صدر کی پیشگی اجازت سے مشروط کرتا ہے، 1973ء کے آئین میں عدلیہ کو اسی لئے آزاد بنایا گیا ہے، 1973ء کے آئین میں بھی قانون سازوں کو درمیان سے نہیں ہٹایا گیا۔
اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ اب میں آرٹیکل 191 کی طرف جاؤں گا، بتاؤں گا کہ ایکٹ آف پارلمینٹ قانون کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں؟۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ایکٹ آف پارلمینٹ اور قانون ایک ہیں یا نہیں، اس کی اہمیت کیا ہے؟۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ نے درخواست قابل سماعت نہ ہونے پر بحث شروع کی تھی وہ مکمل کریں، آپ نے درخواست گزار کے وکیل کے نکات پر بات شروع کر دی، ایک قانون اس وقت تک قابل عمل ہے جب تک وہ غلط ثابت نہ کردیا جائے، غلط ثابت کرنے کی ذمہ داری اس پر ہے جو قانون کو چیلنج کرے، ہمارے پاس اس معاملے پر ہائیکورٹ سے کم اختیارات ہیں۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو آرٹیکل 184/3 پڑھنے کی ہدایات کردی۔ کہا کہ ہائی کورٹ اس قانون کو شاید کالعدم کرسکتی ہے، ہم یہ معاملہ اپیل کے فورم کے طور پر ہی سن سکتے ہیں، 183 تھری میں مفاد عامہ اور بنیادی حقوق دونوں کو دیکھنا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل صاحب بار بار پوچھنے پر وکیل درخواست گزار نے قانون کو اچھا کہا، کیا اب یہ درخواست بنیادی حق کے پیمانے پر پورا اترتی ہے؟۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس درخواست کو اسی بنیاد پر خارج ہوجانا چاہئے۔
جسٹس منیب اختر نے پوچھا کہ بنیادی حق کو چھوڑیں یہ بتائیں مفاد عامہ کا معاملہ ہے یا نہیں؟۔ چیف جسٹس نے مداخلت کی جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ مجھے اپنا سوال مکمل کرنے دیں، یہ عوامی مفاد کا معاملہ ہے کہ پارلیمنٹ قانون سازی آئین میں رہ کر کرے۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ کیا قانون سازی کے اختیار کا معاملہ عوامی مفاد کا نہیں؟۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ معاملہ آرٹیکل 199 کے تحت ہائی کورٹ دیکھ سکتی ہے۔ جسٹس عائشہ نے پوچھا یہی قانون اپیل کا حق بھی دیتا ہے، فل کورٹ کیخلاف اپیل کہاں جائے گی۔
چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ اپیل تو متاثرہ فریق نے کرنا ہوتی ہے، اس کیس میں متاثرہ فریق کون ہوگا؟، ہمیں ایک دو الفاظ میں نہیں پھنسنا چاہئے، پورا آئین دیکھنا چاہئے، متاثرہ فریق وہی ہوتا ہے جسے کوئی نقصان پہنچا ہو۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ذرا آرٹیکل 10 اے پڑھ لیں تاکہ ہماری یادداشت تازہ ہو جائے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 10 اے میں سپریم کورٹ کا ذکر نہیں ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمارے اپنے الگ الگ خیالات ہیں، آپ آگے چلیں، آپ نے ہمیں مطمئن کرنا ہے ہم نے آپ کو نہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آئین سپریم کورٹ احکامات کے خلاف اپیل کا حق نہیں دیتا، اگر آئین نہیں دیتا تو کیا سادہ قانون سازی سے دیا جاسکتا ہے؟۔
جسٹس مظاہر نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ اس قانون کا دیباچہ اور شق 3 پڑھیں، قانون بات ہی سپریم کورٹ اختیارات کی کررہا ہے تو ہائی کورٹ کیسے دیکھے؟۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 75/3 میں لفظ قانون اور ایکٹ دونوں استعمال ہوئے۔ جسٹس عائشہ نے کہا کہ دونوں ایک ہی ہیں تو کسی جگہ ایکٹ آف پارلیمنٹ اور کسی جگہ قانون کیوں ہے؟۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آرڈیننس صدر جاری کرتا ہے مگر وہ ایکٹ آف پارلیمنٹ نہیں ہوتا، جو آبزرویشن دی جارہی ہیں آپ سوال نوٹ کریں، خود کو الگ کرتا ہوں، جو آبزرویشن دی جارہی ہیں وہ بیانات ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میری سمجھ کے مطابق یہ بیانات نہیں ہیں، ایکٹ آف پارلیمنٹ کو قانون سے الگ نہیں کیا گیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے پوچھا کہ یہ بتائیں کہ رولز کس نے بنائے ہیں؟۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا رولز 1980ء میں سپریم کورٹ نے بنائے۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ سپریم کورٹ کیا ہے؟، سپریم کورٹ چیف جسٹس اور تمام ججز پر مشتمل ہوتی ہے، کیا ججز گھر میں بیٹھ کر بھی سپریم کورٹ ہوں گے، ہم علمی بحث میں کیوں پڑے ہوئے ہیں، یہاں فل کورٹ آخری میٹنگ 2019ء میں ہوئی تھی، اس دوران زیر التواء مقدمات کی تعداد 27 ہزار بڑھ گی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ کوئی کہتا ہے میں بلاتا ہی نہیں فل کورٹ میٹنگ تو کیا کریں؟، اگر ایسا نہیں کرنا تو ہم پھر ریاست سے تنخواہ نہ لیں، آپ بھی ادھر ادھر کھسک رہے ہیں نکتے پر نہیں آرہے، آج صبح سے 150 زیر التواء کیسز کا اضافہ ہوچکا ہوگا، یہ کیس اگلے مہینے تک چلا کر ںظام کو تباہ کرنا ہے تو جاری رکھیں۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ جب تک کوئی قانون برخلاف آئین نہ ہو اس کو سپورٹ کرنا چاہئے، اگر زیر التوا کیسز اتنے زیادہ نہ ہوتے کچھ ایسے فیصلے نہ آئے ہوتے تو شاید پارلیمنٹ یہ قانون نہ لاتی، یہاں لوگ ادھار واپس نہ ملنے پر 184/3 کی درخواست ڈال دیتے ہیں، درخواست مسترد ہوجائے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اب معاملہ ہائیکورٹ نہیں جاسکتا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ دراصل ہم نے خود پارلمینٹ کو مجبور کیا ہے کہ وہ یہ قانون بنائے، ہم نے اپنے رولز میں 1980ء سے ترمیم ہی نہیں کی تھی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ بات یہ ہے کہ ہم نے اپنا کام نہیں کیا۔
جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ میرے سوال کا جواب نہیں آیا کہ فل کورٹ کیخلاف اپیل کہاں جائے گی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سوال یہ ہے آئینی ترمیم کے بغیر اپیل کا حق دیا کیسے جاسکتا ہے؟۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آرٹیکل 185 کے تحت ماتحت عدالتوں کے فیصلوں کیخلاف اپیلیں سنتے ہیں، پریکٹس اینڈ پروسیجر میں 184/3 کے فیصلوں کیخلاف اپیل کا حق دیا گیا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ فل کورٹ کیخلاف اپیل کہاں جائے گی، جسٹس عائشہ کے سوالوں کا کیسے جواب دیں گے، اس کیس میں اپیل کا حق پہلے بیٹھنے والے بنیچ نے پہلے دن ہی ختم کردیا تھا، 8 جج بیٹھے تھے اس کیخلاف اپیل کیلئے 9 جج موجود نہیں تھے۔
سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل منصور اعوان مکمل کرلئے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ریمارکس دیئے کہ ایسی آزادی کا کیا کرنا جس سے ملک کی آزادی خطرے میں پڑ جائے۔ جسٹس یحیٰی آفریدی نے استفسار کیا کہ یہ قانون عدلیہ پر زیر التواء مقدمات کا بوجھ مزید نہیں بڑھا دے گا؟۔ جسٹس میاں علی مظہر نے ریمارکس میں کہا اِس قانون کے اطلاق سے 1947ء کے بعد سے سارے کیسز اپیل میں آجائیں گے۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تمام فریقین کو 25 ستمبر تک جواب جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت 3 اکتوبر تک ملتوی کردی۔
چیف جسٹس نے لاہور سے ویڈیو لنک پر حاضر وکیل کو آئندہ سماعت پر اسلام آباد آنے کی ہدایت کردی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے چاہا تھا آج کیس کی سماعت مکمل کریں مگر ممکن نہیں ہوا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ میں نے وقفے میں اپنے 2 سنئیر ججز سے مشاورت کی۔
آئندہ سماعت تک کیلئے بینچز کی تشکیل کا عدالت نے راستہ نکال لیا، کیس کے فیصلے تک بینچ چیف جسٹس 2 سینئر ججز کی مشاورت سے ہی تشکیل دیں گے۔
سپریم کورٹ کے ججز جسٹس سردار طارق اور جسٹس اعجاز الاحسن نے اوپن کورٹ میں بھی رضا مندی دی۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم آج کی سماعت کا آرڈر لکھوا دیتے ہیں، تحریری جوابات کیلئے فریقین کو 25 ستمبر تک کی مہلت دے دی گئی ہے۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیا ہے؟
رواں سال 30 مارچ کو قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ نے بھی عدالتی اصلاحات سے متعلقہ ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023‘ کثرت رائے سے منظور کیا تھا جس کے تحت از خود نوٹس اور بینچوں کی تشکیل کا فیصلہ چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججوں پر مشتمل ایک کمیٹی کو سونپا گیا تھا۔
اس سے قبل یہ اختیار سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے پاس ہوا کرتا تھا۔ تاہم 13 اپریل کو سپریم کورٹ نے اس قانون سازی کے خلاف عبوری حکم جاری کیا جس میں اس پر عملدرآمد تاحکم ثانی روک دیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر اب تک 5 سماعتیں ہو چکی ہیں، 13 اپریل کو پہلی سماعت میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے 8 ججز پر مشتمل ایک لارجر بینچ بنا کر سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر حکم امتناعی جاری کر دیا جو ابھی تک برقرار ہے۔
لوگ خوشی سے نہیں بلکہ اپنے مسئلے ختم کرنے عدالت آتے ہیں،چیف جسٹس
اس سے قبل چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سپریم کورٹ آمد پر پرتپاک استقبال کیا گیا۔سپریم کورٹ ملازمین کی بڑی تعداد نے چیف جسٹس کا استقبال کیا۔
اس موقع پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یاد رکھیے کہ عدالت اور سپریم کورٹ لوگ خوشی سے نہیں آتے بلکہ اپنے مسئلے ختم کرنے کیلئے آتے ہیں، تو براہ کرم آپ ایسا ان سے سلوک کیجئے جیسا کہ ایک میزبان مہمان سے کرتا ہے۔ یہ دروازے انصاف کے آپ کھلے رکھیے۔ باقی کام ہمارا ہے۔