لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری، زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری کے مصداق جامعہ کراچی کی خاتون پروفیسر دنیا کیلئے مثال بن گئیں۔ ڈاکٹر راشدہ ارتفاق کی کہانی 50 برس پر محیط ہے جو 85 برس کی عمر میں بھی طلباء میں علم بانٹ رہی ہیں اور اپنی ساری زندگی تعلیم کے فروغ کیلئے وقف کردی ہے۔
جامعہ کراچی کی 85 سالہ پروفیسر ڈاکٹر راشدہ ارتفاق تقریباً 50 برس سے کراچی یونیورسٹی میں استاد کے فرائض انجام دے رہی ہیں، انہوں نے تقریباً 20 سال قبل ریٹائرمنٹ کے باوجود درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے، کئی برس سے بلا معاوضہ طلباء کو ایم فل اور پی ایچ ڈی کروا رہی ہیں۔
ڈاکٹر راشدہ نے 1953ء میں بھارتی شہر کانپور کی علی گڑھ یونیورسٹی سے آرگینک کیمسٹری میں ماسٹرز کیا، شادی کے بعد پاکستان منتقل ہوگئیں، ڈاکٹر ارتفاق علی ان کے عزیز تھے، جن سے شادی ہوئی، مرحوم ڈاکٹر ارتفاق علی جامعہ کراچی کے وائس چانسلر بھی رہے۔
ڈاکٹر راشدہ پاکستان منتقل ہونے کے بعد کچھ عرصہ آسٹریلیا میں رہیں اور پھر واپس کراچی آکر جامعہ کراچی کے شعبہ اپلائیڈ کیمسٹری میں پڑھانا شروع کردیا۔ اس وقت کے وائس چانسلر مرحوم ڈاکٹر معصوم علی ترمذی کے دور میں شعبہ فوڈ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی بنیاد رکھی اور آج یہ شعبہ فوڈ سائنسز میں کئی ماہرین معاشرے کو دے چکا ہے، ان کی سرپرستی میں زیتون کی کاشت پر بھی کام کیا گیا۔
انہوں نے فوڈ سائنسز شعبے کے قیام سے متعلق بتایا کہ ہم زرعی ملک ہیں دنیا بھر کی چیزیں اگاتے ہیں لیکن اسے پریزرو نہیں کرتے، پروسیس نہیں کرتے ان سے ویلیو ایڈڈ پراڈکٹ نہیں بناتے، مثلا گیہوں ہے گیہوں سے آٹا بناتے ہیں اور آٹے سے روٹی بنالیتے ہیں، اس سے مزید کتنی چیزیں بن سکتی ہیں۔
دوسرا فوڈ انڈسٹری میں کچھ ویسٹ نہیں ہوتا بلکہ ویسٹ سے دوسری الگ انڈسٹری کھڑی ہوجاتی ہے، گیہوں سے گران نکلتا ہے، انڈیا گران سے آئل نکال رہا ہے، اسی وجہ سے میری دلچسپی بھی اس طرف زیادہ ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ تعلیم کا معیار پہلے جیسا نہیں رہا، اس کے ذمہ دار اساتذہ اور طلباء دونوں ہیں بلکہ مینجمنٹ بھی اس کی ذمہ دار ہے، ہمارے دور میں ٹیوشن پڑھنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے، تعلیم کیلئے دو ہی جگہیں تھیں، ایک تعلیمی ادارہ اور دوسرا گھر، اب کوچنگ سینٹرز کی بھرمار ہے، اس کی وجہ یہ ہے کچھ اساتذہ طلباء کو پڑھا نہیں رہے یا استاد میں وہ کشش نہیں ہے کہ انہیں وہ انرجی دے۔
ڈاکٹر راشدہ نے تعلیم کیلئے جدید ٹیکنالوجی اور گیجٹس کے استعمال کو ضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ اب آپ کہیں بھی بیٹھے ہوں گیجٹس کے مثبت استعمال سے علم حاصل کرسکتے ہیں لیکن ان کا کہنا تھا کہ کتاب کا کوئی چیز متبادل نہیں ہوسکتی اور نہ ہی میں لائبریری کو اس کا متبادل قرار دے رہی ہوں۔
ان سے ریٹائرمینٹ کے بعد بلامعاوضہ پڑھانے سے متعلق پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ " استاد بھی کبھی ریٹائر ہوتے ہیں؟"۔ انہوں نے مزید کہا کہ مجھے اس یونیورسٹی نے بہت کچھ دیا ہے اور میں یونیورسٹی کو واپس لوٹانا چاہتی ہوں، ریٹائرمنٹ کے بعد پڑھانے کا مقصد یہی ہے کہ جو علم حاصل کیا ہے وہ نئی نسل کو لوٹایا جائے، انہیں اپنے تجربات سے سکھایا جائے۔
باہمت خاتون پروفیسر اپنی زندگی کا نصف سے زائد حصہ نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کیلئے وقف کرچکی ہیں، ان کی خواہش ہے کہ وہ آخری سانس تک علم کے فروغ کیلئے اپنا کردار ادا کرتی رہیں۔ ڈاکٹر راشدہ جیسی خواتین معاشرے کیلئے زندہ مثالیں ہیں، جن کے نقش قدم پر چل کر معاشرے میں تعلیم کو عام کیا جا سکتا ہے۔