افغان طالبان نے افغانستان سے بین الاقوامی فوجوں کی واپسی کےلیے کیےگئے دوحہ معاہدے کے ایک بھی وعدے کا پاس نہیں رکھا۔
تفصیلات کے مطابق فروری 2020 میں امریکہ اور طالبان نے باہمی رضامندی سے دوحہ معاہدے پر دستخط کیے تاہم دوحہ معاہدے میں طالبان نے کیے گئے ایک بھی وعدے کا پاس نہ رکھا۔
معاہدے کے مطابق دونوں ممالک نے امریکی فوجیوں کے انخلا کی ٹائم لائن طے کی۔ طالبان نے اپنے زیر تسلط علاقوں میں دہشتگردی کی روک تھام کی یقین دہانی کرائی اور افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کی حامی بھری۔ معاہدے کے برعکس طالبان نے کسی قسم کی سرکاری جنگ بندی قائم نہیں کی بلکہ افغان سکیورٹی فورسز اور عام شہریوں پر دوبارہ حملے شروع کر دیئے۔
سنہ 2020 اور 2021 میں تشدد کی فضا برقرار رہی اور طالبان کی جانب سے حملوں میں شدید اضافہ پایا گیا۔ افغانستان میں امریکی افواج پر حملے روکنے کے اپنے وعدے کے علاوہ، طالبان نے معاہدے کی کسی دوسری شق کا احترام نہیں کیا۔
افغانستان میں دو دہائیوں کی جنگ کے بعد بھی کابل طالبان کے زیر تسلط ہے۔ کاؤنسل آف فارن ریلیشنز کی رپورٹ کے مطابق معاہدے کو توڑتے ہوئے طالبان نے اسکول بند کیے، موسیقی پر پابندی لگادی اور خواتین کو سخت سماجی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ 26 اگست 2021 کو کابل ائیر پورٹ کے باہر دو خودکش حملوں میں 167 افغانی مارے گئے۔ اسی دوران طالبان نے متعدد شہری علاقوں پر براہ راست حملے شروع کیے، جن میں جنوب میں قندھار اور مغرب میں ہرات شامل ہیں۔
کاؤنسل آف فارن ریلیشنز کے مطابق 6 اگست 2021 کو طالبان نے جنوبی صوبہ نمروز کے دارالحکومت پر قبضہ کیا۔ معاہدے کے باوجود 5,000 طالبان جنگجوؤں کو افغان جیلوں سے رہا کیا گیا جو آج دنیا بھر میں دہشتگردی کی کاروائیوں میں ملوث ہیں۔
طالبان نے وسیع پیمانے پر بدعنوانی اور سیاسی مداخلت کی اور افغان فورسز میں پست حوصلے تباہی کا باعث بنے۔ امریکی انسپکٹر جنرل کے مطابق فروری 2020 کے معاہدے کے بعد طالبان نے افغان فورسز پر حملوں میں اضافہ کیا۔