سپریم جوڈیشل کونسل میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کیخلاف کارروائی کا معاملہ پر جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے ججز کو کھلا خط لکھ دیا ، جس میں انہوں نے جوڈیشل کونسل کے سربراہ اور ارکان پر جانبداری کا الزام عائد کرتے ہوئے عدم اعتماد کا اظہار کر دیا ۔
جسٹس مظاہرعلی اکبرنقوی نےخط میں مؤقف اختیارکیا ہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس طارق مسعود نے سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو میرے خلاف کارروائی کیلئےخطوط لکھے ، سپریم کورٹ اورعوام کے سوا کسی کیلئے فرائض سرانجام نہیں دے رہا، پاکستان کی سیاسی اشرافیہ کے ہاتھوں میں کھیلنے سے انکار پر نتائج بھگت رہا ہوں ، میں سپریم جوڈیشل کونسل کی جعلی کارروائی کا آخر تک مقابلہ کروں گا ۔
خط کے مطابق یہ میری ذات کا نہیں بلکہ سپریم کورٹ کے وقار کا معاملہ ہے ، جسٹس اعجازالاحسن کا خط ظاہرکرتا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کی کیسے خلاف ورزی کی جا رہی ہے ، کمیٹی اجلاس میں سینیارٹی کی بنیاد پر بینچز کی تشکیل کا فیصلہ ہوا ، چیف جسٹس نے اس موقع پر یہ بینچ تشکیل کیوں دیا اس کا فیصلہ ججز خود کریں، گیارہ دسمبرکی رات بتایا گیاکہ سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس چودہ دسمبر کو ہو گا ۔
انہوں نے لکھا کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ درخواستیں دائر ہونےکےباوجود جوڈیشل کونسل نے کارروائی روکنے سے انکار کیا،چیئرمین جوڈیشل کونسل آئین میں دیئے گئے میرےحقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہے ہیں ، چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے تحت ہونے والی کونسل کی کارروائی پر میرا یقین نہیں ۔
جسٹس مظاہر نقوی کا کہنا ہے جوڈیشل کونسل کا اٹھائیس اکتوبر کو جاری کردہ شوکاز نوٹس آئینی و قانونی نقائص سے بھرپور تھا ، کونسل نےمیرےاعتراضات پر فیصلہ کرنےکے بجائےدوسرا شوکاز نوٹس جاری کر دیا ،اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پہلا نوٹس نقائص سے بھرپور تھا ، جوڈیشل کونسل ارکان اپنی جانبداری کی وجہ سے میرے خلاف کارروائی کرنے کے اہل نہیں ۔