سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کی پھانسی ملک میں عدلیہ کی تاریخ کا وہ بڑا فیصلہ جو عدالتوں میں کبھی بطور نظیر بھی پیش نہ کیا جاسکا فیصلے کیخلاف اپریل دو ہزار گیارہ میں دائر صدارتی ریفرنس پر گیارہ سال سے زائد عرصہ بعد کل چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا نو رکنی لارجر بینچ سماعت کرے گا ۔
رپورٹس کے مطابق سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کےفیصلے کیخلاف صدارتی ریفرنس پر11 سال بعد کل پھر سماعت ہوگی چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 9 رکنی لارجر بینچ سماعت کرے گادیگر ارکان میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ ،جسٹس یحیٰی آفریدی،جسٹس امین الدین ، جسٹس جمال خان مندوخیل،جسٹس محمد علی مظہر،جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔
صدارتی ریفرنس اپریل 2011 میں سابق صدر آصف علی زرداری نے دائر کیا تھا ۔
پھانسی کا متنازع فیصلہ غیر آئینی، غیرقانونی، غیر شرعی اور جانبدارانہ ہونے پر5 سوالات اٹھائےگئے۔ ریفرنس سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کے 2011 کے ٹی وی انٹرویو کی بنیاد پر دائر کیا گیا تھا، جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ بھٹو کیخلاف کیس کی سماعت کرنے والے ججز پر دباؤ تھا۔
قانونی ماہرین متفق ہیں کہ اگر یہ عدالتی قتل تھا تو قصور واروں پر ذمہ داری ضرور عائد ہونی چاہئے
ماہر قانون شاہ خاور کا کہنا ہے کہ ایک ایسا عمل جس کو عدالتی قتل کہتے ہیں اس پر جن لوگوں نے فیصلہ دیا تھا انہیں سزا تو نہیں ہو سکتی لیکن تاریخ میں کم از کم ذمہ داری تو ڈال دی جائے۔
ماہر قانون جہانگیر جدون کا کہنا ہے کہ بعض ججوں نے انٹرویو دیئے ہیں کہ ان پر پریشر تھا جس کے تحت یہ فیصلہ دیا اس پر ہو سکتا ہے سپریم کورٹ کی رائے آجائے کہ فیصلہ ٹھیک نہیں ہوا تھا ، یہ ایک رائے ہو گی فیصلہ تو نہیں ہو گا، پیپلز پارٹی کو ایک مورل گراؤنڈ مل جائے گی
ماہر قانون شعیب شاہین عدالتی نظیریں اس بات کی اجازت نہیں دیتیں کہ ان کو پھانسی ہوتی، اس غلطی کو سپریم کورٹ اب درست کر سکتی ہے۔
صدارتی ریفرنس پر پہلی سماعت سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں 11 رکنی لارجر بینچ نے کی تھی ۔ تب موجودہ پی ٹی آئی رہنما بابر اعوان جیالی حکومت کے وکیل تھے، جنوری 2012 میں توہین عدالت پر بابر اعوان کا لائسنس معطل ہونے پر کیس کی پیروی بیرسٹر اعتزاز احسن کو سونپی گئی تھی۔