سابق چیئرمین پی ٹی آئی اور دیگر کے خلاف 190 ملین پاؤنڈ اسکینڈل کی تحقیقاتی رپورٹ میں تہلکہ خیز انکشافات سامنے آئے ہیں۔ رپورٹ میں سیٹلمنٹ سے پہلے ملک ریاض کی شہزاد اکبر کے ہمراہ سابق وزیراعظم سے ملاقات کی بھی تصدیق ہوئی ہے۔
تفصیلات کے مطابق برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کے ساتھ خط و کتابت کا ریکارڈ اثاثہ جات ریکوری یونٹ سے غائب ہو گیا ہے۔ غائب ہونے والا ریکارڈشہزاد اکبر اور ضیا المصطفی ٰنسیم کے پاس تھا، ریکارڈ ریاست پاکستان کی ملکیت تھا،ریکارڈ کو سیاہ کاریاں چھپانے کیلئے غائب کیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق ریکارڈ کا غائب ہونا تفتیش میں رکاوٹ ڈالنے کیلئے تھا، کابینہ ڈویژن ریکارڈ غائب ہونے کی انکوائری کروا چکا، انکوائری میں ریکارڈ گم ہونے کی ذمہ داری شہزاد اکبر اور ضیا المصطفی ٰنسیم پر عائد ہو چکی۔
اثاثہ جات ریکوری یونٹ کے سیکرٹری منظور کیانی نے خط و کتابت کی تصدیق کی، اثاثہ جات ریکوری یونٹ نے این سی اے کے کنٹری منیجر عثمان احمد کو خطوط لکھے تھے، پہلے دو خطوط میں این سی اے کو ون ہائیڈ پارک لندن پراپرٹی اور منی لانڈرنگ تحقیقات سے آگاہ کیا گیا تھا، خطوط کے بعد ہی این سی اے نے برطانیہ میں اکاؤنٹس فریز کئے تھے۔
رپورٹ کے مطابق 18 اپریل 2019 کے تیسرے خط میں این سی اے کو حیران کن وضاحتیں دی گئیں، شہزاد اکبر کی ہدایت پر این سی اے کو بتایا گیا علی ریاض ون ہائیڈ پارک لندن پاکستانی قانون کےمطابق ڈیکلئیر کر چکے، ٹیکس دے چکے، این سی اے کو بتایا گیا پاکستان میں اس جائیداد پر کوئی کارروائی اب نہیں ہو سکتی۔ این سی اے کو تاثر دیا گیا بحریہ ٹاؤن کےخلاف اب کوئی تحقیقات نہیں چل رہیں۔
رپورٹ کے مطابق شہزاد اکبر کابینہ منظوری سے پہلے ہی "ڈیڈ آف کانفیڈنشیالٹی" این سی اے کو 6 نومبر 2019کو جمع کروا چکے تھے، شہزاد اکبر کابینہ منظوری کیلئے"بائی ہینڈ" سمری وزیراعظم ہاؤس لائے، سمری وصولی کا ریکارڈ موجود نہیں۔