جنوبی پنجاب کے دیگر اضلاع کی طرح بہاولپور میں بھی خواتین میں الیکشن لڑنے کا رجحان نا ہونے کے برابر ہے جسکی سب سےبڑی وجہ یہ ہے کہ خواتین کا مردوں میں آنا جانا ملنا جلنا اور کمپیئن کرناوغیرہ جیسے عوامل کو معیوب سمجھا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ گاؤں دیہات کے حلقہ جات کے ساتھ ساتھ شہری حلقوں میں بھی خواتین الیکشن نہیں لڑ سکتیں، نا ہی لڑنا چاہتی ہیں۔
الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہوتے ہی ملک بھر کی طرح ضلع بہاولپور کے 5 قومی اور 10 صوبائی حلقوں پر بھی انتخابات کےلئے تیاریاں جاری ہیں۔ بہاولپور کے قومی حلقوں میں این اے 164، 167،166،165، اور168 شامل ہیں جبکہ صوبائی اسمبلی کے حلقوں میں پی پی 245 سے 254 تک کے حلقے شامل ہیں۔ ان حلقوں کےلیے رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 23 لاکھ 30 ہزار سے زائد ہیں، جن میں مرد ووٹروں کی تعداد1235140 اورخواتین ووٹرز کی تعداد1067903 ہے۔
این اے 164 تحصیل تحصیل خیر پور ٹامیوالی، تحصیل حاصلپور اور قانون گوئی عباس نگر پر مشتمل ہے۔ این اے 165 تحصیل احمد پور شرقیہ اور اوچ شریف کے علاقوں پر مشتمل ہے، این اے 166 تحصیل تحصیل یزمان اور تحصیل احمد پور شرقیہ کے علاقوں جبکہ این اے 167 بہاولپور شہر اور اس کے مضافات پرمشتمل ہے۔ این اے 168 تحصیل تحصیل احمد پور شرقیہ اور بہاول پور کے علاقوں پرمشتمل ہے۔ لیکن بدقسمتی سے خواتین ووٹرز کی جتنی تعداد ہےاتنی الیکشن لڑنے کے لئے خواتین امیدوار نا ہونے کے برابر ہیں۔
اگر 2018 کے الیکشن کی بات کی جائے تو بہاولپور شہر کےحلقہ این اے 170 سے پی ٹی آئی چھوڑ کر آنے والی شازیہ نورین کو سابق صدر جنرل (ر)پرویز مشرف کی پارٹی آل پاکستان مسلم لیگ نے نیشنل اسمبلی کا ٹکٹ تو دیا لیکن انتہائی کم ووٹ ملنے کی وجہ سے انکی ضمانت بھی ضبط ہوگئی۔ کیونکہ پاکستان میں الیکشن کی شرائط کے مطابق اگر کوئی شخص اپنے حلقے کے کل رجسٹر ووٹرز کی تعداد میں سے 12 فیصد یا 12 سے کم ووٹ لے تو الیکشن کمیشن اس کی ضمانت ضبط کر لیتا ہے۔ یہ ضمانت الیکشن کمیشن کے پاس بطور فیس کے جمع کرائی جاتی ہے۔ قومی اسمبلی کے لیے یہ فیس پہلے چار ہزار تھی جو اب بڑھ کر 50 ہزار کر دی گئی ہے۔ صوبائی اسمبلی میں پہلے یہ فیس دو ہزار روپے تھی جو اب بڑھا کر 25 ہزار کر دی گئی ہے۔
احمدپور شرقیہ سے سردار عامر یار وارن کی نااہلی کے باعث پارٹی نے انکی بیوی کو ٹکٹ دیا لیکن وہ بھی کامیاب ناہوسکیں، جسکی سب سے بڑی وجہ انکا حلقے میں کمپیئن نا کرناتھا انکی کمپیئن بھی انکے خاوند نے کی جبکہ حاصلپور سےچوہدری طاہر بشیر چیمہ جوکہ طارق بشیر چیمہ کے بھائی ہیں انکی بیٹی نے صوبائی اسمبلی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا لیکن کامیاب نا ہوسکیں جبکہ بہاولپور شہر کے صوبائی حلقہ میں پاکستان تحریک انصاف کی متحرک کارکن سمیرہ ملک اس بارصوبائی سیٹ کے لئے مضبوط امیدوار تھیں لیکن 9 مئی کےواقعے کے بعد وہ بھی سیاست سے فی الحال کنارہ کر چکی ہیں جبکہ سمیرہ ملک گزشتہ لوکل الیکشن میں اپنے ہی بھائی کےخلاف چیئرمین کا الیکشن لڑ چکی ہیں لیکن انکو کامیابی نہیں مل سکی تھی۔
واضح رہے کہ سمیرہ ملک پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی ترجمان بھی رہ چکی، ہیں دوسری جانب آج تک بہاولپور سے صرف مخصوص سیٹوں پرپارلیمنٹ میں جانے والی ن لیگی خواتین جن میں صوبائی اسمبلی میں فوزیہ ایوب قریشی اور نیشنل اسمبلی میں بیگم پروین مسعود بھٹی شامل ہیں جنھوں نے آج تک بہاولپور کیخواتین کے کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا۔
اسی حوالے سے شازیہ نورین خان جو درس و تدریس کے شعبے سے وابسطہ ہیں اور ایک ایکٹو سوشل ورکر بھی ہیں انھوں نےبتایا ہے کہ پارٹی اس دفعہ بھی انکو نیشنل اسمبلی کا ٹکٹ دےچکی ہے اور وہ بھرپور الیکشن میں حصہ لینگی، انکا کہنا تھاکہ جب تک خواتین آگے نہیں آئینگی انکے مسائل حل نہیں ہوسکیں گے، دیگر شعبہ جات کی طرح سیاست میں بھی خواتین کو بھرپور کردار ادا کرنا چاہئے تاکہ خواتین کی نمائندگی بہترطریقے سے ہوسکے۔
شازیہ نورین کہتی ہیں کہ ہمارے خاندان میں عام طور پر خواتین کوباہر نہیں جانے دیا جاتا، نا یونیورسٹیز میں تعلیم کی اجازت ہوتی ہے لیکن میں خوش قسمت ہوں کہ میری فیملی، والد بھائی نے میرا ساتھ دیا، میں نے ایک ٹرینڈ سیٹ کیا ہے، خاندان کی پہلی لڑکی ہوں جو پڑھ لکھ کر ٹیچر کی جاب اور اب پھر سیاست میں آئی ہوں۔
وہ کہتی ہیں کہ گزشتہ الیکشن میرا پہلا الیکشن تھا جب میں میدان میں اتری تو پتا چلا کہ یہ کتنا مشکل ٹاسک ہے، میری یہ خوش قسمتی تھی کہ میرے سٹوڈنٹس نے میرا بہت ساتھ دیا، کمپیئن کی دن رات ایک کرکے ووٹ مانگے، میٹنگز کی پوسٹرزفلیکسز لگائے، گھر والوں دوستوں کو ووٹس کے لئے راضی کیالیکن میں نے یہ نوٹ کیا کہ لوگوں کو پتا ہی نہیں ہے کہ ووٹ کس کو دینا ہے ان کے نزدیک بڑی گاڑی سے اترنے والا کڑاکے دارکپڑے پہن کر عینک لگا کر آنے والا ہی ووٹ لینے کا صحیح حقدارہے، یہ کانسیپٹ ہے یہاں پر کہ جو آئے گا پیسے دیگا جلسہ کرےگا چاول بانٹے گا اور ووٹ لے جائے گا۔
شازیہ نورین نے کہا کہ میں جب ووٹ مانگنے کے لئے یوسف ٹاؤن گئی، جہاں اقلیتی برادری زیادہ رہائش پزیر ہے تو انکا کہنا تھاکہ باجی ہم سے تو پہلے ہی حلف لے لیا گیا ہے، آپ اگر دو دن پہلے آتی تو شائد حلف نا ہوا ہوتا تو ہم آپکو ووٹ دے دیتے لیکن اب مشکل ہے یہ بات میرے لئے پہلا صدمہ تھی کہ ووٹ کے لئےکونسا حلف وہ بھی کرسچن کمیونٹی سے۔ مزید کہا کہ شاہدرہ میں جب گئی سب لوگوں نے ووٹ کا وعدہ کیا لیکن آخری رات پتا چلا کہ مخالف پارٹی سے انکے ہیڈ نے پیسے پکڑ کر ووٹ انکو دئیے ہیں۔
شازیہ نورین کا خیال ہے کہ خواتین کے لئے سب سے بڑا مسئلہ لوگوں کا اپنے ووٹ کی اہمیت کو نا سمجھنا ہے پھر لوگ کہتے ہیں بی بی ہمارے مسئلے توتھانے کچہری کے ہوتے ہیں آپ نے جیت کر کونسا ہمارے مسئلےحل کرنے ہیں، آپ نے کونسا پنچائیت کرنی ہے، یہ کام مردوں کوہی زیب دیتے ہیں، دوسری جانب آپکے پاس بہت زیادہ پیسا ناہوتو بھی آپ الیکشن نہیں لڑ سکتے، خاص طور پر جب آپکامخالف پیسے والا ہو، مخالف پارٹی کے لوگ عورت کو کمزورسمجھتے ہیں اور ہمارے بچوں سٹوڈنٹس کو جو کمپیئن کرتے تھےپوسٹر وغیرہ لگاتے تھے انکو ڈرایا دھمکایا جاتا تھا، پوسٹرزپھاڑ دئیے جاتے تھے، بچے ڈر جاتے تھے۔
میڈیا کوریج کے بارے میں شازیہ نورین کا کہنا تھا کہ اکیلی خاتون امیدوار ہونے کی وجہ سے میڈیا سے خوب کوریج ملی جسکی سب سے بڑی وجہ بڑی گاڑی کی بجائے ایک آٹو رکشہ پرالیکشن کی کمپیئن کرنا تھا صحافی برادری نے کم از کم میرابہت ساتھ دیا۔
شازیہ نورین کا کہنا تھا کہ مخصوص سیٹ پر الیکٹ ہونے والی خواتین کچھ بھی نہیں کرسکتیں، نا ان کے بس میں کچھ ہوتا ہےوہ صرف برائے نام پارلیمنٹیرین ہوتی ہیں، الیکشن لڑنے کے لئےبہت زیادہ محنت ،سٹرگل کرنی پڑتی ہے، سب سے پہلی مشکل توگھر سے شروع ہوتی ہے کہ گھر والے ہی اجازت نہیں دیتےالیکشن لڑنے کی، انکا کہنا تھا کہ والدین کو اپنی بیٹیوں پربھروسہ کرنا چاہئیے، انکو آگے آنے دینا چاہئیے تاکہ وہ بھی ملکو قوم کے لئے بہتر فیصلوں کا حصہ بن سکیں، اپنے جیسی خواتین کے لئے کچھ اچھا اور مثبت کرسکیں مجھے امید ہے پہلی ہار کے بعد اس بار جیت ہماری ہوگی۔
اسی حوالے سے جب ہم نے دیگر سیاست سے وابسطہ خواتین سے بات کی جن کا تعلق پاکستان تحریک سے تھا جن میں صوبائی حلقے کی امیدوار سمیرہ ملک سر فہرست ہیں تو انھوں نے جواب دینے سے انکار کردیا وہ اب سیاست پر بات ہی نہیں کرنا چاہتی نا ہی کوئی وجہ بتا سکتی ہیں البتہ وہ گزشتہ دنوں 9 مئی کے واقعات کی مذمت کرکے پاکستان تحریک انصاف سے لاتعلقی کا اعلان بھی کرچکی ہیں۔
لوگ خواتین امیدوار کو ووٹ کیوں نہیں دیتے؟
آخر لوگ خواتین امیدوار کو ووٹ کیوں نہیں دیتے مردوں کو ہی کیوں ترجیح دیتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں لوگوں کا کہنا تھا کہ ہمارے زیادہ تر معاملات تھانہ کچہری پولیس عدالت وغیرہ سے منسلک ہوتے ہیں تو خواتین اسطرح کے معاملات میں نہیں پڑتی اسلئے ہمارا لیڈر مرد ہی ہونا چاہئیے جو خواتین کی ترجمانی بھی کرسکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ جنوبی پنجاب کے زیادہ تر حلقوں میں سیاسی جماعتیں بھی مرد سیاست دانوں کو ہی ٹکٹ دیتے ہیں۔