الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے صدر پاکستان سے مشاورت کے بعد ملک میں قومی و صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے لیے 8 فروری 2024 کی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔ عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوتے ہی ملک بھر کی طرح ضلع فیصل آباد میں بھی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز ہو چکا ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ ماضی کے امیدوا رسیاسی وفاداریاں تبدیل کر رہے ہیں ۔ اس ضلع میں الیکٹیبلز کا اثرو رسوخ زیادہ رہا ہے جو آئندہ آنے والے انتخابات میں بھی نظر آئے گا۔ 2018 کی حلقہ بندیوں کے بعد اس ضلع میں قومی اسمبلی کی 10 جبکہ صوبائی اسمبلی کی 21 نشستیں تھیں اور 2023 کی نئی حلقہ بندیوں کے بعد یہاں قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ فیصل آباد میں 2018 کے الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف ،قومی اسمبلی کی 7 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی تھی مگر اس بار سیاسی منظر نامہ مکمل طور پر تبدیل ہو چکا ہے اور اس کی بڑی وجہ 9 مئی کے واقعات ہیں، جس کے بعد پی ٹی آئی کے متعدد امیدوار وں نے پارٹی سے علیحدگی اختیار کر کے یا تو پارٹی تبدیل کر لی ورنہ دوسری صورت میں سیاست کو خیر باد کہہ دیا ہے ۔
فیصل آباد جسے لائل پور کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ، اگر اس ضلع کی جغرافیائی حدود کی بات کی جائے تو اس کے شمال میں چک جھمرہ، جنوب میں سمندری، مشرق میں جڑانوالہ اور مغرب میں ڈجکوٹ واقع ہیں۔ اس ضلع کی آبادی 9075819 ہے اور یہاں اعوان ، شیخ، ملک، آرائیں ، گجر اور راجپوت برادری سے تعلق رکھنے والے لوگ زیادہ تعداد میں رہائش پزیر ہیں۔ یہ ضلع 5 تحصیلوں پر مشتمل ہے جن میں چک جھمرہ ، جڑانوالہ، سمندری ، تاندلیانوالہ اور تحصیل فیصل آباد شامل ہے۔
سیاسی صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر 2018 کے حوالے سے اس ضلع کی پارٹی پوزیشن کی بات کریں تو یہا ں قومی اسمبلی کی 10 نشستوں میں سے 7 پاکستان تحریک انصاف نے حاصل کیں، 2 مسلم لیگ ن جبکہ ایک نشست آزاد امیدوار نے جیتی، صوبائی اسمبلی کی 21 نشستوں میں سے 11 مسلم لیگ ن حاصل کرنے میں کامیاب رہی، 8 پاکستان تحریک انصاف نے جیتیں اور 2 نشستوں پر آزاد امیدوار کامیاب ہوئے۔
فیصل آباد کا حلقہ این اے 101 جو 2023 کی حلقہ بندیوں کے بعد حلقہ این اے95 ہو گیاہے یہاں پر 2018 میں محمد عاصم نذیر بطور آزاد امیدوار 147937ووٹوں کے ساتھ کامیاب ہوئے، بعد ازاں تحریک انصاف میں شامل ہوئے۔محمد عاصم نذیر 2002 اور 2008 کے جنرل الیکشن میں مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر اور 2013 میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر رکن قو می اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔
آنے والے انتخابات 2024میں یہ کہنا قبل ازوقت ہو گا کہ عاصم نذیر بطور آزاد امیدوار ہی انتخابات میں حصہ لیں گے یا پھر کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کریں گے۔اس حلقے میں ساہی خاندان بھی انتخابی سیاست کے پرانے کھلاڑی ہیں ۔چودھری افضل ساہی نے سیاست کا آغاز 1979 میں مقامی سیاست سے کیا۔1988 میں مسلم لیگ ن سے پارلیمانی سیاست کا حصہ ہیں،2008 میں انہوں نے اپنے بیٹے علی افضل ساہی کو سیاست کے میدان میں اتارا۔2018 کے جنرل الیکشن میں چودھری افضل ساہی اور انکے بیٹے علی افضل نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔2018 میں صوبائی حلقے پی پی۔97 سے محمد اجمل نے بطور آزاد امیدوار انتخاب لڑا اور پی ٹی آئی کے علی افضل ساہی کو شکست دی۔ دوسری جانب پی پی۔ 98 سے رانا محمد شعیب ادریس نے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر الیکشن مین حصہ لیا اور پی ٹی آئی کے امیدوار محمد افضل ساہی کو انتخابات میں ہرایا۔
فیصل آباد کا دوسرا مقبول حلقہ طلال چودھری ، پرانا این اے 102 تھا اور نئی حلقہ بندیوں کے بعد این اے 96ہو گیا ہے۔ یہاں سے 2018 میں پی ٹی آئی کے امیدوار ملک نواب شیر وسیرنے الیکشن جیتا اور مسلم لیگ ن کے امیدوار طلال چوہدری کو شکست دی ، جبکہ تیسر ےنمبر پر پاکستان پیپلز پارٹی کے رائے شاہجہان رہے۔ صوبائی اسمبلی کی نشستوں کی بات کی جائے تو پی پی 99 سے پی ٹی آئی کے امیدوار چوہدری علی اختر نے کامیابی حاصل کر کے مسلم لیگ ن کے رکن اکبر علی کو شکست دی۔ پی پی 100 سے پی ٹی آئی کے امیدوار چوہدری ظہیر الدین نے مسلم لیگ ن کی امیدوار عفت معراج اعوان کو شکست دی اور پی پی 101 سے مسلم لیگ ن کے رائے حیدر علی خان نے پی ٹی آئی کے امیدوار غلام حیدر باری کو شکست دی۔ 2013 کے عام انتخابات کی بات کی جائے تو مسلم لیگ ن کے رکن طلال چوہدری نے کامیابی حاصل کر کے پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار نواب شیرو سیر کو شکست دی تھی ۔ پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے 1988 کے الیکشن میں انتخابی سیاست میں صوبائی اسمبلی کی نشست جیت کر کیا۔2002 میں مسلم لیگ ق میں جبکہ 2008 میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے۔2013 میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ سے ہار گئے جبکہ 2018 کے الیکشن میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی۔ ماضی میں پی ٹی آئی سے الیکشن لڑنے والے نواب شیر وسیرسیاسی وفاداری تبدیل کر کے مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں ،جس کے بعد یہاں سے پارٹی کے لئے ٹکٹ کی تقسیم مسئلہ بن سکتی ہے۔
رانا ثنا ءاللہ کا نیا حلقہ این اے 100 جو اس سے پہلے این اے 106 تھا۔ 2018 کے انتخابات میں یہاں سے رانا ثناءاللہ نے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر الیکشن میں کامیابی حاصل کی اور پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار نثار احمد جٹ کو شکست دی ۔نثار احمد جٹ پیپلزپارٹی کےرہنما چودھری الیاس جٹ کے داماد ہیں۔ الیاس جٹ نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے کیا اور حلقہ این اے 81 سے1993 میں بہت بڑی اکثریت سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے ۔ صوبائی اسمبلی کی نشستوں کو زیر غور لایا جائے تو پی پی 108 اور پی پی 109 سے مسلم لیگ ن کے امیدواروں نے کامیابی حاصل کر کے پاکستان تحریک انصاف کے امیدواروں کو شکست دی ۔ ماضی میں اس حلقے سے مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار کامیاب ہوتے رہے ہیں۔
راجہ ریاض کا حلقہ این اے 104 جو 2018 کے انتخابات میں این اے 110 تھا ، یہاں سے راجہ ریاض احمد نے بطورآزاد امیدوار الیکشن میں حصہ لیا اور کامیاب ہوئے، بعد ازاں تحریک انصاف میں شامل ہو گئے۔ انہوں نے مسلم لیگ ن کے امیدوار رانا محمد افضل خان کو شکست دی ۔ 2008 کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کےصوبائی ٹکٹ پر کامیاب ہوئے اور صوبائی وزیر بنے ،2013 میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر ہار گئے۔ رانا افضل خان کی وفات کی بعد انکے بیٹے رانا احسان افضل اس حلقے میں ن لیگ کے ٹکٹ کے خواہش مند ہیں مگر راجہ ریاض کی ن لیگ میں شمولیت کے بعد اس حلقے میں ٹکٹ کی تقسیم کا مسئلہ بن سکتا ہے۔صوبائی اسمبلی کی نشستیں جس میں پی پی 111، پی پی 116 اور پی پی 117 شامل ہیں ،اس میں پی پی 111 پر پی ٹی آئی کامیاب رہی جبکہ پی پی 116 اور 117 پر مسلم لیگ ن کامیاب رہی۔ ضلع فیصل آباد مسلم لیگ ن کا گڑھ سمجھا جاتا ہے ،2013 کے انتخابات میں یہاں سے مسلم لیگ ن نے قومی اسمبلی کی تمام نشستوں پر کلین سوئپ کیا تھا۔مزید یہ کہ آنے والے انتخابات کے پیش نظر ملک بھر میں سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے ۔مسلم لیگ ن ،پیپلز پارٹی اور پاکستان استحکام پارٹی میں الیکٹیبلز شمولیت اختیار کر رہے ہیں ۔