امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے امریکا کی معاشی ترقی، سرحدی تحفظ اور سابق حکومت کی پالیسیوں پر کھل کر اظہارِ خیال کیا۔ اپنے مخصوص انداز میں ٹرمپ نے اپنی حکومت کی کامیابیوں کو نمایاں کیا اور بائیڈن انتظامیہ پر تنقید کے نشتر برسائے۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ "ریاستہائے متحدہ امریکا کے لیے یہ ایک سنہری دور ہے، ہماری معیشت بہت طاقتور ہو چکی ہے،سرحدیں محفوظ ہیں اور ہم نے اقتدار سنبھالنے کے بعد 17 ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری حاصل کی ہے۔"
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی حکومت نے مہنگائی پر قابو پایا، جو ان کے بقول سابق حکومت کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے بڑھی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ "ہمیں اقتدار میں معاشی تباہی وراثت میں ملی، لیکن ہم نے مہنگائی کو شکست دی۔"
صدر ٹرمپ نے کہا کہ "ہماری صنعت عروج پر ہے اور اسٹاک مارکیٹ شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔"
انہوں نے بائیڈن حکومت کی بارڈر پالیسیوں کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ "بائیڈن کی سرحدی پالیسی نے امریکا کو شدید نقصان پہنچایا۔"
ٹرمپ کے خطاب کا محور "امریکا فرسٹ" پالیسی پر مرکوز رہا، جہاں انہوں نے عالمی رہنماؤں کو اپنی داخلی کامیابیاں گنوائیں اور کہا کہ "امریکا اب پہلے سے زیادہ مضبوط، خودمختار اور محفوظ ہے۔"
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عالمی امن کے لیے اپنی کوششوں کو تاریخی قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ انہوں نے دنیا بھر میں سات بڑی جنگیں رکوا کر لاکھوں زندگیاں بچائیں۔
صدر ٹرمپ نے کہا "میں نے دنیا میں سات جنگیں رکوائیں، جن میں کچھ جنگیں 31 سال سے جاری تھیں، مجھے فخر ہے کہ پاکستان اور بھارت، ایران، آرمینیا اور آذربائیجان جیسے حساس خطوں میں کشیدگی کو کم کروایا۔"
اپنے خطاب میں انہوں نے عالمی قیادت سے روابط کا حوالہ دیتے ہوئے کہا "میں نے مختلف رہنماؤں کو فون کرکے تجارتی معاہدے کیے، بات چیت سے مسائل حل کیے اور جنگوں کو ٹالا۔ یہ صرف سیاست نہیں، یہ انسانیت کی خدمت ہے۔"
صدر ٹرمپ نے اقوام متحدہ پر بھی تنقید کی اور کہا کہ "اقوام متحدہ کے پاس زبردست صلاحیت موجود ہے، لیکن افسوس کہ یہ ادارہ اپنی اس صلاحیت کو مکمل طور پر بروئے کار لانے کے قابل نہیں رہا۔"انہوں نے کہا کہ عالمی برادری کو بامعنی اور نتیجہ خیز سفارت کاری کی جانب لوٹنا ہوگا، اور امریکا اس مشن میں اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے غز ہ میں جاری جنگ پر تشویش کا اظہار کیا اور امن کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت پر زور دیااور کہا کہ ہمیں غزہ میں جنگ ختم کرنی چاہیے، امن کے لیے بات چیت کرنی چاہیے۔
صدر ٹرمپ نے واضح موقف اپناتے ہوئے کہا کہ "ہمیں حما س کے مطالبات کے سامنے سرنڈر نہیں کرنا چاہیے، جنگ بندی کا معاہدہ حماس کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے نہیں ہو پایا۔"
انہوں نے حماس پر زور دیا کہ "وہ فوری طور پر تمام یرغمالیوں کو رہا کرے اور جنگ بندی پر آمادگی ظاہر کرے۔"ٹرمپ نے اقوام متحدہ کے فورم سے حماس سے اپیل کی کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر قیدیوں کو آزاد کیا جائے۔
صدر ٹرمپ نے بتایا کہ "ہم مذاکرات کر رہے ہیں تاکہ یرغمالی واپس آ سکیں، یہ ایک مشکل عمل ہے لیکن ہم انسانی جانوں کی قدر کرتے ہیں اور ہر ممکن کوشش جاری رکھیں گے۔"ان کا مزید کہنا تھا کہ فلسطینی ریاست قائم ہونی چاہیے لیکن حما س کی گنجائش نہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے عالمی ادارے پر سخت تنقید کی اور کہا کہ امریکا نے دنیا بھر میں جنگیں روکنے کی سنجیدہ کوششیں کیں، مگر اقوام متحدہ اس عمل میں ان کے ساتھ کھڑا نہیں ہوا۔
صدر ٹرمپ نے واضح الفاظ میں کہا کہ "ہمیں اقوام متحدہ سے کچھ نہیں ملا، جنگیں روکنے کی ہماری کوششوں میں یہ ادارہ ہمارے ساتھ نہیں تھا۔"
انہوں نے مزید کہا کہ ان کے لیے ذاتی ایوارڈز اہم نہیں، بلکہ انسانیت کی بھلائی مقدم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ"میرے لیے جو چیز اہم ہے، وہ جان بچانا ہے، ایوارڈ جیتنا نہیں لیکن سچ یہ ہے کہ مجھے اپنی کامیابیوں کے لیے امن کا نوبل انعام ملنا چاہیے۔"
امریکی صدر کا کہناتھا کہ میری انتظامیہ انسانی اسمگلروں کا سراغ لگانے کے لیے کام کررہی ہے،بائیڈن کے دور میں 3لاکھ سے زیادہ بچے امریکا سے اسمگل کیے گئے۔
انہوں نے ایک مرتبہ پھر روس پر ٹیرف لگانے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ اگر روس یوکرین میں جنگ ختم کرنے پر آمادہ نہیں ہے، تو بھاری ٹیرف لگائیں گے،بھارت اور چین روس سے تیل خرید کر یوکرین میں جنگ کی مالی امداد کر رہے ہیں،یورپ کو روسی تیل خریدنا بند کرنا چاہیے،سمجھ نہیں آ رہی کچھ ممالک جنگ کے دوران روس سے کیسے تیل خرید رہے ہیں، یوکرین جنگ کے خاتمے کیلئے کوششیں کررہے ہیں، جنگ میں نوجوان فوجی مارے گئے، چین اور بھارت یوکرین جنگ میں بڑی فنڈنگ کرنے رہے ہیں۔





















