مرے وجود میں جو روشنی بسی ہوئی ہے
یہ اک چراغِ عرب سے مجھے ملی ہوئی ہے
اس تحریر کا آغاز ابھی ہوانہیں مگر آنکھوں سےعشق کے موتی بصارت اور قرطاس کے درمیان حائل ہونے لگے ہیں۔ لفظ ہیں کے ساتھ نہیں دے رہے، جذبات کا غلبہ ہے، میڈیا کی بھاگ دوڑنے اس روحانی سرشاری سے دوربہت دور کر دیا تھا۔ اور تقریبا دس برس بعد میری یہ حالت ہوئی ہے۔ مگر اب یوں لگتا ہے کہ بارگاہ ایزدی کو شاید مجھ سیاکار پر رحم آگیا ہے۔ اور مجھ سے یہ چند ٹوٹے پھوٹے لفظ بحضور سرور کائنات لکھوانے کی سعادت بخش دی ہے۔
زباں پہ جب بھی محمدؐ کا نام آتا ہے
ہمارے ذہن میں اونچا مقام آتا ہے
میرا عشق اس سے کہ جس بشرکامل نے بربادیوں میں ڈوبے، غلاظتوں سے لتھڑے، اور سیاہ کاریوں کے گڑھوں میں گردن تک دھنسے سماج کواپنے حسن انتظام سے ایک مثالی فلاحی ریاست میں تبدیل کردیا، تباہ حال انسانی معاشرے کواخلاقی پستیوں کی اتھاہ گہرائیوں سے نکال کرانتہائی مختصر وقت میں عزتوں ، عظمتوں، رفعتوں حتیٰ کہ انسانیت کی معراج تک پہنچادیا۔ تاریخ انسانی کے اس انوکھے اورتعجب انگیزانسانی انقلاب نے اس وقت کے اہل دانش کوحیرت زدہ کردیا۔ اس وقت کے ذی شعور ذہن چکرا کررہ گئے، وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ ختمی مرتبت نے اتنے قلیل وقت میں ایسا کونسا جادوکردیا کہ چھوٹے اورعام سے انسانوں کوان کے قد سے بلند، بہت بلند کرکے اخلاقی، انتظامی تہذیبی الغرض ہرشعبہ ہائے زندگی میں اعلٰی و ارفع وممتازو یگانہ کردیا ہے۔ ان کے سینے نورایمان اورجذبہ ایثاروہمدردی سے منورکردیے ہیں۔
وہ ایسا اعلیٰ نبی جس کا ایک اک ساتھی
زمانے والوں کا بن کر امام آتا ہے
درِحضور پہ دیکھے ہیں ایسے دیوانے
زمیں پہ بیٹھے ہیں رب کا سلام آتا ہے
مختصروقت میں معلوم تاریخ انسانی کے اس عظیم انقلاب پر محمدؐ عربی کو ایک مداح مولانا حالی نے یوں خراج عقیدت پیش کیا کہ ان کی ذات کے ایک ایک گوشے کو منظوم کرنے کی کوشش کی۔
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پرائے کاغم کھانے والا
فقیروں کا ملجا ضعیفوں کا ماوی
یتیموں کا والی غلاموں کا مولا
خطاکار سے درگزر کرنے والا
قبائل کو شیر و شکر کرنے والا
اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا
مس خام کو جس نے کندن بنایا
کھرا اور کھوٹا الگ کر دکھایا
رہا ڈر نہ بیڑے کو موج بلا کا
ادھر سے ادھر پھر گیا رخ ہوا کا
شاعر بے مثال اور عشق رسولؐ میں سرشار حضرتِ اقبال کو بھی مولانا حالی کا یہ ادب پارہ، یہ آفاقی اشعار بے حد پسند تھے، جنہیں اکثر اقبال پڑھتے اور دیر تک روتے رہتے تھے۔
عرب جن پہ قرنوں سے تھا جہل چھایا
پلٹ دی بس اک آن میں ان کی کایا
ایک ایسی تبدیلی جس کی حجاز تو حجاز، سرزمین عرب کی سرحدوں سے باہر بھی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ ایک ایسی تبدیلی جس کا تصور آج کے اس جدید دور کے انسان کے بھی رونگٹے کھڑے کردیتا ہے۔ یہ اسی بشر کامل ہی کا معجزہ تھا۔ یہ اسی صاحب جُودوسخا ہی کا اعجاز تھا، یہ اسی خیرالوریٰ ہی کا کرِزما تھا، ورنہ محض 23سال میں ایسی آفاقی تبدیلی کسی انسان کے بس کی بات نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ صرف مسلمان ہی نہیں غیرمسلم مشاہیر بھی آںجناب کے گرویدہ و مدح سرا ہیں۔
خیرالبشر سے متعلق غیرمسلم مشاہیر کے خیالات:
جرمنی کا مشہور ادیب شاعر اور ڈراما نگار ”گوئٹے “ حضورؐ کا مداح اور عاشق تھا۔ اپنی تخلیق ”دیوانِ مغربی“میں گوئٹے نے حضور اقدس کی بارگاہ میں جگہ جگہ عشق محمدؐ کا اظہارکیا ہے اور ان کے قدموں میں عقیدت کے پھول نچھاور کیے ہیں۔ فرانس کے محقق ڈی لمرٹائن نے اپنی کتاب ”تاریخِ ترکی“ میں انسانی عظمت کے لیے جو معیار قائم کیا اس ضمن میں فاضل تاریخ دان لکھتاہے ” اگر انسانی عظمت کو ناپنے کے لیے تین شرائط اہم ہوں، جن میں (1)۔ مقصد کی بلندی، (2)۔ وسائل کی کمی، (3)۔ حیرت انگیر نتائج۔ تو اس معیارپر جدید تاریخ کی کون سی شخصیت محمدؐ سے ہمسری کا دعویٰ کرسکتی ہے؟ “۔
تھامس کارلائیل نے 1840ء کے مشہور دروس (لیکچرز) میں کہا کہ ”میں محمدؐ سے محبت کرتاہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ ان کی طبیعت میں نام ونمود اور ریا کا شائبہ تک نہ تھا۔ ہم انہی صفات کے بدلے میں آپ کی خدمت میں ہدیہً اخلاص پیش کرتے ہیں “۔
فرانس کا شہنشاہ نپولین بوناپارٹ کہتا ہے ” محمد دراصل سروراعظم تھے ۔15سال کے قلیل عرصے میں لوگوں کی کثیر تعداد نے جھوٹے دیوتاﺅں کی پرستش سے توبہ کرڈالی۔ مٹی کی بنی دیویاں مٹی میں ملا دی گئیں۔ یہ حیرت انگیزکارنامہ تھا آنحضرت کی تعلیم کا “۔
مغربی مصنف مائیکل ہارٹ نے اپنی مشہورِ زمانہ کتاب The Hundred میں دنیا کے ان سو عظیم ترین آدمیوں کا ذکر کیا ہے جنہوں نے دنیا کی تشکیل میں بڑا کردار ادا کیا۔ اس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سب سے پہلے نمبر پر شمارکیا ہے۔ مصنف ایک عیسائی ہوکر بھی اپنے دلائل سے یہ ثابت کرتاہے کہ نبی معظم پورے نسل انسانی میں سیّدالبشر کہنے کے لائق ہیں۔
جارج برناڈشا لکھتے ہیں ” موجودہ انسانی مصائب سے نجات ملنے کی واحد صورت یہی ہے کہ محمدؐ اس دنیا کے رہنما بنیں “۔ گاندھی جی نے لکھا ” بانی اسلام نے اعلیٰ اخلاق کی تعلیم دی جس نے انسان کو سچائی کا راستہ دکھایا اور برابری کی تعلیم دی۔ میں اسلام کا جتنا مطالعہ کرتاہوں اتنا مجھے یقین راسخ ہوجاتاہے کہ یہ مذہب تلوار سے نہیں پھیلا “۔
فرانسیسی مصنف دی لمرتین لکھتاہے ” فلسفی، مبلغ، پیغمبر، قانون ساز، سپاہ سالار، ذہنوں کا فاتح، دانائی کے عقائد برپا کرنے والا، بت پرستی سے پاک معاشرہ تشکیل دینے والا۔ بیسیوں ریاستوں کو ایک روحانی سلطنت میں متحد کرنے والا۔ وہ محمد ہیں۔ جہاں تک انسانی عظمت کے معیار کا تعلق ہے، ہم پوچھ سکتے ہیں، کیا ان معیاروں پر پورا اُترنے والا محمد سے بھی کوئی برترہوسکتا ہے؟“۔
ڈاکٹر شیلے پیغمبر آخرالزماں کی ابدیت اور لاثانیت کا اقرار کرتے ہوئے لکھتے ہیں ” محمد گزشتہ اور موجودہ لوگوں میں سب سے اکمل اور افضل تھے اور آئندہ ان کا مثال پیدا ہونا محال اور قطعاً غیرممکن ہے”۔
جب غیر مسلموں کا یہ حال ہے تو ہم کیوں نہ کہیں، "بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر"۔
اس صاحب اَسرار، اس ختمی مرتبت پہ دل و جان سے لاکھوں سلام۔
آخر میں نعت کے چند اشعار
کوئی جب لفظ احمد بولتا ہے
ہمارے کان میں رس گھولتا ہے
اجالے پھیل جاتے ہیں جہاں میں
کوئی جب نعت کو لب کھولتا ہے
بچا لیتی ہے آقا کی اطاعت
قدم جب بھی ہمارا ڈولتا ہے
شعورِ زندگی ملتا ہے اس کو
جو عشق مصطفی میں بولتا ہے
عباس ممتاز 15 برس سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں۔ ان دنوں سماء ٹیلی وژن کے ساتھ بطور پروڈیوسر کوالٹی کنٹرول وابستہ ہیں۔





















