سپریم کورٹ نے بلوچستان میں مردم شماری نتائج کے خلاف اپیل پر اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان کو نوٹس جاری کر دیا۔
عدالت عظمیٰ کے جسٹس اعجاز الحسن کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے بلوچستان میں مردم شماری کے نتائج کے خلاف اپیل پر سماعت کی جس کے دوران درخواست گزار حسن مرتضیٰ کی جانب سے ایڈووکیٹ کامران مرتضی پیش ہوئے۔
سماعت کے دوران جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ بلوچستان حکومت نے تو مردم شماری نتائج پراعتراض نہیں کیا، آرٹیکل 154 کے تحت صرف حکومت نتائج چیلنج کر سکتی ہے، جس پر کامران مرتصیٰ نے کہا کہ میں وہاں کا شہری ہوں اور آرٹیکل 199 کے تحت مردم شماری کو چیلنج کیا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آپ آرٹیکل 199 کو جواز بنا کر آرٹیکل 154 کو غیر مؤثر نہیں کر سکتے۔
عدالت نے سوال اٹھایا کہ مردم شماری منظوری کا معاملہ مشترکہ مفادات کونسل میں کس قانون کے تحت جاتا ہے؟۔
کامران مرتضیٰ نے دلائل دیئے کہ مشتترکہ مفادات کونسل فیصلے کے وقت وجود نہیں رکھتی تھی، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں نگران حکومت آچکی تھی، وزیراعلیٰ بلوچستان کو مشترکہ مفادات کونسل زبردستی لے جایا گیا۔
جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیئے کہ ان دو صوبوں سے کسی نے چیلنج نہیں کیا جبکہ جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ آپ یہ معاملہ پارلیمنٹ میں کیوں نہیں اٹھاتے، جس پر کامران مرتضیٰ نے بتایا کہ میں نے بطور سینیٹر یہ معاملہ ایوان بالا میں اٹھایا، مشتترکہ اجلاس کیلئے قومی اسمبلی موجود ہی نہیں۔
جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیئے کہ مردم شماری آئینی تقاضا ہے جس کے اثرات این ایف سی پربھی ہوتے ہیں۔
عدالت نے سوال اٹھایا کہ آئین و قانون یا رولز آف بزنس میں مردم شماری کی منظوری کا کیا طریقہ درج ہے؟۔
کامران مرتضٰی نے عدالتی سوالات پر معاونت کیلئے مہلت مانگی جس پر تین رکنی بینچ نے انہیں ہدایت کی کہ آپ تھوڑا وقت لے لیں اور ان سوالات پر معاونت کریں۔
بعدازاں، عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کر دی۔