بھارت نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پابندیوں کی دھمکیوں کے باوجود روس سے تیل کی خریداری برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق یہ بات بھارتی حکومت کے 2 ذرائع نے معاملے کی حساسیت کے باعث شناخت ظاہر نہ کرنے کی خواہش پر اس بات سے آگاہ کیا۔
رپورٹ میں بھارتی سرکاری ذرائع کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ ’یہ طویل المدتی تیل کے معاہدے ہیں، خریداری کو یکدم روک دینا اتنا آسان نہیں ہے۔
ہفتے کے روز نیو یارک ٹائمز نے بھی دو نامعلوم بھارتی سینیئر حکام کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ بھارتی حکومت کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، ایک اہلکار نے کہا کہ حکومت نے تیل کی درآمدات کم کرنے کے لیے تیل کمپنیوں کو کوئی ہدایت جاری نہیں کی، اس ہفتے یہ خبر بھی سامنے آئی کہ بھارتی سرکاری ریفائنریز نے گزشتہ ہفتے روسی تیل کی خریداری روک دی، کیونکہ جولائی میں رعایتیں کم ہو گئیں۔
بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے معمول کی بریفنگ میں کہا کہ ’ہم اپنی توانائی کی ضروریات کے لیے مارکیٹ میں دستیاب مواقع، پیشکشوں اور موجودہ عالمی حالات کو مدنظر رکھتے ہیں‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ بھارت کا روس کے ساتھ ایک ’مستحکم اور آزمودہ شراکت داری‘ کا رشتہ ہے اور نئی دہلی کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات اپنی جگہ اہم ہیں اور انہیں کسی تیسرے ملک کے تناظر میں نہیں دیکھنا چاہیے۔
گزشتہ ماہ ٹرمپ نے ٹروتھ سوشل پر ایک پوسٹ میں اشارہ دیا تھا کہ روسی ہتھیاروں اور تیل کی خریداری پر بھارت کو مزید پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جمعے کو ٹرمپ نے صحافیوں کو بتایا کہ انہوں نے سنا ہے بھارت اب روس سے تیل نہیں خریدے گا۔
روس بدستور بھارت کو تیل فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے، جو بھارت کی کل درآمدات کا تقریباً 35 فیصد مہیا کرتا ہے، اس کے بعد عراق، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا نمبر آتا ہے۔
ذرائع کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق بھارت دنیا میں تیل کا تیسرا سب سے بڑا درآمد کنندہ اور صارف ہے، جو رواں سال جنوری سے جون کے دوران روس سے روزانہ تقریباً 17 لاکھ 50 ہزار بیرل تیل درآمد کرتا رہا ہے، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں ایک فیصد زیادہ ہے۔
روسی تیل کا بڑا خریدار نایارا انرجی حال ہی میں یورپی یونین کی جانب سے اس لیے پابندیوں کی زد میں آیا کیونکہ اس ریفائنری کی اکثریتی ملکیت روسی اداروں کے پاس ہے، جن میں روس کی بڑی آئل کمپنی روسنیفٹ بھی شامل ہے۔
یورپی یونین کی پابندیاں لگنے کے بعد نایارا کے چیف ایگزیکٹو نے استعفیٰ دے دیا اور کمپنی کے سینئر رکن سرگئی ڈینیسوف کو نیا سی ای او مقرر کیا گیا۔
نایارا انرجی کے 3 تیل بردار جہاز یورپی یونین کی نئی پابندیوں کے باعث اب تک اپنا مال نہیں اتار سکے ہیں، کیونکہ یہ ریفائنری روس کی پشت پناہی میں چلتی ہے۔






















