بھارت کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے ایک بار پھر پاکستان مخالف پراپیگنڈکرتے ہوئے پہلگام حملے سے متعلق بھارتی پارلیمنٹ میں بے بنیاد الزامات عائد کیے ہیں۔ امیت شاہ نے دعویٰ کیا کہ حملے میں ملوث تینوں افراد پاکستانی تھے اور ان کے پاس سے مبینہ طور پر پاکستانی ووٹر آئی ڈی اور چاکلیٹس برآمد ہوئیں۔
بھارتی ایوان لوک سبھا میں پہلگام حملے اور آپریشن سندور پر ہونے والی بحث میں وزیر داخلہ امیت شاہ نے اپنی تقریر میں کہا کہ بھارتی فورسز کے ہاتھوں مارے گئے افراد پاکستانی تھے، اور اس کی بنیاد اُن کے پاس سے ملنے والے ووٹر آئی ڈی کارڈز اور پاکستانی چاکلیٹس پر رکھی گئی ہے ۔
امیت شاہ شاہ کے اس بیان نے بھارت کے خودساختہ بیانیے کا پول کھول دیا ہے پاکستان میں ووٹر آئی ڈی کارڈ جیسا کوئی دستاویزی نظام موجود ہی نہیں، بلکہ یہاں شناخت کے لیے قومی شناختی کارڈ استعمال ہوتا ہے۔ ایسے میں ووٹر آئی ڈی کی موجودگی کا دعویٰ مضحکہ خیز اور حقیقت سے ماورا ہے۔
بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے یہ بھی کہا کہ ان افراد کے قبضے سے پاکستانی چاکلیٹس برآمد ہوئیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ مبینہ دہشت گرد تھے تو کیا انہوں نے تین ماہ تک چاکلیٹس اپنے پاس محفوظ رکھیں؟ یہ الزام اتنا مضحکہ خیزہے کہ خود بھارتی سوشل میڈیا پر بھی اس پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
امیت شاہ نے الزام عائد کیا کہ کل آپریشن مہادیو کے تحت سلیمان عرف فیصل جٹ، افغان اور جبران نامی دہشت گرد آرمی، سی آر پی ایف اور پولیس کے مشترکہ آپریشن میں مارے گئے ہیں۔سلیمان لشکر طیبہ کا کمانڈر تھا جو پہلگام اور گگنگیر حملوں میں ملوث تھا جبکہ افغان اور جبران بھی لشکر طیبہ کے اے گریڈ دہشت گرد تھے۔
یاد رہے کہ پاکستان پہلے ہی پہلگام حملے میں ملوث ہونے کی تردید کر چکا ہے اور غیرجانبدار تحقیقات میں مکمل تعاون کی پیشکش بھی دے چکا ہے۔بھارتی حکومت اپنی داخلی ناکامیوں سے توجہ ہٹانے کے لیے پاکستان مخالف بیانیہ اختیار کرتی ہے اور ہر واقعے کا الزام پاکستان پر دھر کر اپنی عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ بغیر کسی عدالتی کارروائی کے ان افراد کو مار دیا گیاہے اور بعد میں اُن پر دہشت گردی کا الزام لگایا گیا ہے۔ یہ بھارتی نظام انصاف پر بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔پاکستانی عوام اور حکومت ایک بار پھر بھارت کے ان بے بنیاد الزامات کو مسترد کرتے ہیں اور عالمی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ بھارت کی ریاستی دہشتگردی اور جعلی بیانیے کا نوٹس لے۔






















