اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس میں پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کی ضمانت اور فرد جرم عائد کرنے کے خلاف درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں شاہ محمود قریشی کی ضمانت اور فرد جرم عائد کرنے کے خلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی جس کے دوران وفاقی تحقیقاتی ایجنسی ( ایف آئی اے ) کے اسپیشل پراسیکیوٹر راجہ رضوان عباسی عدالت میں پیش ہوئے۔
ایف آئی اے اسپیشل پراسیکیوٹر نے اپنے دلائل میں کہا کہ کچھ حقائق عدالت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں، 9 اکتوبر کو نقول شاہ محمود قریشی کو دی گئی تھیں، 17 اکتوبر کو انہوں نے آرڈر پر دستخط کیے اور 23 اکتوبر کو قانونی تقاضے پورے کرکے فرد جرم عائد ہوئی۔
عدالت نے استفسار کیا کہ یہ بھی وائٹ کالر کرائم جیسا ہی معاملہ ہے،جو نقول انھوں نے مانگیں وہ دیں؟،جس پر پراسیکیوٹر نے بتایا کہ قانون میں جو ہے اس کے مطابق کاپیاں ملزم کو فراہم کردی ہیں۔
اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ شاہ محمود قریشی کو سائفر کی حساسیت کا بھی علم تھا جبکہ راجہ رضوان عباسی نے شاہ محمود قریشی کی تقریر کا ٹرانسکرپٹ بھی پڑھا جس کے مطابق سابق وزیر خارجہ نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی میں نے امانت آپ کو دے دی، یہ راز ہے اور میں راز آپ کو دے رہا ہوں۔
شاہ محمود قریشی نے 27 مارچ 2022ء کو پی ٹی آئی کے جلسے میں تقریر کی تھی۔
اسپیشل پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس میں معاونت کے ثبوت ہیں، اس کیس میں مزید انکوائری کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا درخواستگزار کی حد تک چارج صرف جرم میں معاونت کا ہے؟ درخواستگزار کیخلاف سائفر پاس رکھنے اور استعمال کرنے کا استعمال تو نہیں؟، جس پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ جی بالکل شاہ محمود قریشی پر چارج معاونت کا ہی ہے ، انہوں نے اپنی تقریر یا الفاظ سے انکار نہیں کیا۔
ذوالفقار عباس نقوی نے عدالت کو بتایا کہ 15 سے 20 دن میں سائفر کیس کا ٹرائل مکمل ہوسکتا ہے، عدالت زیادہ سے زیادہ ایک ماہ دے تو ٹرائل مکمل کر دیں گے، یہ کہتے ہیں ہر سماعت پر تین تین گواہوں کے بیان ریکارڈ کریں، ضمانت تب دی جاتی ہے جب ملزم کیخلاف شواہد نہ ہوں، گزارش یہ ہے کہ شاہ محمود قریشی بھی جرم میں برابر کے شریک ہیں۔
بعدازاں، چیف جسٹس عامر فاروق نے دلائل مکمل ہونے پر درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کیا۔