سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی کیس میں خیبرپختونخوا حکومت کی فریق بننے کی درخواست منظور کر لی۔
پیر کے روز سپریم کورٹ کے 11 رکنی آئینی بینچ نے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی کیس کی سماعت کی جس کے دوران ججز نے اہم ریمارکس دیتے ہوئے قانونی پیچیدگیوں پر روشنی ڈالی جبکہ خیبرپختونخوا حکومت کی فریق بننے کی درخواست بھی منظور کر لی گئی۔
دوران سماعت جسٹس محمد علی مظہر نے سوال اٹھایا کہ سنی اتحاد کونسل اور پی ٹی آئی دونوں کی آئین اور ساخت الگ الگ ہے تو ان کا مفاد ایک کیسے ہو سکتا ہے؟۔
انہوں نے کہا کہ انٹرا پارٹی انتخابات نہ کرانے پر 13 جنوری کا عدالتی فیصلہ سامنے آیا۔
دوسری جانب جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ جو امیدوار آزاد تھے اور سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوئے، ان کی واپسی کیسے ممکن ہے؟
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اگر فیصلے میں کوئی غلطی ہوئی تو اسے درست کرنے کے لیے تیار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جنوری کے فیصلے سے یہ تاثر درست نہیں کہ امیدواروں کو آزاد کیا گیا کیونکہ دسمبر میں کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت کچھ لوگوں نے خود کو آزاد ظاہر کیا تھا۔
انہوں نے استفسار کیا کہ کیا کسی امیدوار نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ اس کے پاس سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا؟
فیصل صدیقی کے دلائل
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مخصوص نشستوں کا معاملہ آزاد امیدواروں کی بڑی تعداد کی وجہ سے پیچیدہ ہوا۔
انہوں نے بتایا کہ پی ٹی آئی کو نشستیں ملنے پر ان کا اعتراض نہیں کیونکہ دونوں جماعتوں کا مفاد یکساں تھا۔
انہوں نے کہا کہ آزاد امیدواروں کے حصے کی مخصوص نشستیں تین جماعتوں میں تقسیم کی جا سکتی ہیں یا نہیں یہ ایک اہم نکتہ ہے، لیکن پی ٹی آئی نے بطور جماعت الیکشن لڑا یا نہیں یہ سوال بھی زیر بحث ہے۔
فیصل صدیقی نے واضح کیا کہ وہ نہ سنی اتحاد کونسل کے حامی ہیں نہ پی ٹی آئی کے بلکہ سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے کی حمایت کرتے ہیں۔
انہوں نے اعتراض اٹھایا کہ فیصلے سے آئین و قانون میں دی گئی ٹائم لائن تبدیل ہوئی جس پر جسٹس مندوخیل نے کہا کہ اگر کوئی غلطی ہوئی تو اسے درست کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ صرف ان 39 ارکان کو پی ٹی آئی کا قرار دیا گیا جنہوں نے اپنی وابستگی ظاہر کی تھی لیکن ریٹرننگ افسر کو آزاد امیدواروں کو ڈیکلئیر کرنے کا اختیار نہیں، تو سپریم کورٹ کو کیسے یہ اختیار حاصل ہوا؟۔
جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ تنازعہ آزاد امیدواروں کے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت سے جڑا ہے۔
بعدازاں، عدالت نے کیس کی مزید سماعت منگل تک ملتوی کر دی۔






















