وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ شہریوں کی ٹیلی فونک گفتگو ریکارڈ کرنے کے لیے قانونی فریم ورک موجود ہے۔ فیئر ٹرائل ایکٹ شہریوں کی گفتگو ریکارڈ کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
آڈیو لیکس کیس میں وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں عدالتی سوالات پر جواب جمع کرا دیا،تحریری جواب میں کہا گیا ہے کہ فیئر ٹرائل ایکٹ شہریوں کی گفتگو ریکارڈ کرنے کی اجازت اور میکنزم دیتا ہے تاہم قانون کے مطابق ریکارڈڈ گفتگو خفیہ رکھنا اور لیک ہونے سے بچانا ضروری ہے۔ یہ یقینی بنانا بھی ضروری ہے کہ ریکارڈ شدہ گفتگو کسی اور مقصد کے لیے استعمال نہ ہو۔
تحریری جواب کے مطابق ٹیلی گراف ایکٹ 1885میں بھی پیغامات پڑھنے کے لیے حکومتی اجازت لازم ہے، پیکا آرڈی نینس اور رولز کے تحت حاصل ڈیٹا یا رکارڈ کو بھی خفیہ رکھنا لازمی ہے۔
وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری کی جانب سے جمع جواب میں کہا گیا ہے کہ شہریوں کی ٹیلی فونک گفتگو رکارڈ کرکے لیک کرنے کا معاملہ علم میں ہے، وفاقی حکومت نے سینئر ججز پر مشتمل اعلی سطح کا انکوائری کمیشن قائم کیا ہے جو انکوائری کمیشن لیک شدہ آڈیوز کے مصدقہ ہونے کی انکوائری کرے گا۔
تحریری جواب میں مزید کہا گیا ہے کہ وزیراعظم آفس انٹیلی جنس ایجنسیز کے روزمرہ امور میں مداخلت نہیں کرتا، وزیراعظم آفس سیاسی اور انتظامی دفتر ہے،انٹیلی جنس ایجنسیز سے فاصلہ رکھتا ہے، انٹیلی جنس ایجنسیز سے آئین و قانون کے مطابق عوامی مفاد میں کام کرنے کی امید ہے۔ وزیراعظم آفس کاخفیہ اداروں کے آپریشنز کی تفصیل میں جانا قومی سلامتی کے مفاد میں نہیں۔