سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی کیس کی سماعت سے قبل جسٹس منصور علی شاہ نے نظرثانی اختیارات سے متعلق اہم فیصلہ جاری کر دیا۔
سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے نظرثانی اختیارات کے دائرہ کار پر اہم فیصلہ جاری کر دیا۔فیصلے کے مطابق نظرثانی صرف آرٹیکل 188 اور متعلقہ رولز کے تحت ہو سکتی ہے۔
نظرثانی کے لیے لازمی ہے کہ فیصلے میں کسی واضح غلطی کی نشاندہی کی جائے، محض کسی ایک فریق کا عدم اطمینان نظرثانی کی بنیاد نہیں بن سکتا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ جو نکتہ پہلے مسترد ہو چکا ہو اسے دوبارہ نہیں اٹھایا جا سکتا۔ یہ دلیل بھی ناقابل قبول ہے کہ فیصلے میں دوسرا نکتہ نظر بھی شامل ہو سکتا تھا۔
فیصلے کے مطابق اس وقت پاکستان میں 22 لاکھ سے زائد مقدمات زیر التوا ہیں۔ سپریم کورٹ میں 6 ہزار سے زائد کیسز زیر التوا ہیں جن میں بڑی تعداد نظرثانی درخواستوں کی ہے۔
عدالتی فیصلے میں زور دیا گیا کہ من گھڑت اور غیر ضروری نظرثانی درخواستوں کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔
مذکورہ فیصلہ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر اور خیبرپختونخوا حکومت محکمہ تعلیم کی نظر ثانی درخواستوں پر جاری کیا گیا ہے، 29 فروری 2022 کو پرائمری اسکول ٹیچرز کے تقرری کے حوالے سےسپریم کورٹ کے جاری کردہ فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ڈومیسائل رہائش کا اصلی ثبوت جبکہ صرف شناختی کارڈ اِس سلسلے میں ناکافی ثبوت ہے۔