جسٹس جمال مندوخیل نے سپر ٹیکس کے نفاذ سے متعلق سوالات اٹھادیئے۔ وکیل ایف بی آر رضا ربانی نے کہا کہ سپر ٹیکس تباہ شدہ گھروں کی مرمت کیلئے استعمال ہوگا، اس میں علاقہ واضح نہیں، سپر ٹیکس اور انکم ٹیکس دو چیزیں ہیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں سپر ٹیکس سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آپ یہ بتا دیں کہ یہ ٹیکس آرٹیکل 173 کے تحت ہی لگایا تھا یا نہیں۔
وکیل ایف بی آر رضا ربانی نے کہا کہ ٹیکسیشن کا پورا طریقۂ کار آرٹیکل 173 میں واضح کیا گیا ہے، خزانہ کی قائمہ کمیٹی پہلے بجٹ کے حوالے سے طے کرتی ہے، خزانہ کمیٹی اسے ایوان بالا میں بھیجتی ہے وہاں سے پھر بجٹ منظور ہوتا ہے۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ فور بی لوکل پرپس کیلئے نہیں ہوتا وہ لوکل باڈی کیلئے ہوتا ہے، فور بی میں واضح ہے کہ سپر ٹیکس تباہ شدہ گھروں کی مرمت کیلئے استعمال ہوگا، اس میں علاقہ واضح نہیں، سپر ٹیکس اور انکم ٹیکس دو چیزیں ہیں، سپر ٹیکس کسی خاص مقصد کیلئے لگایا جاتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ سپر ٹیکس سے جمع کی گئی رقم کس طرح تقسیم ہوتی ہے؟، کیا قانون سازی کے بغیر آپ سپر ٹیکس لگاسکتے ہیں؟۔ رضا ربانی نے بتایا کہ سپر ٹیکس کے حوالے سے قانون سازی کی گئی تھی، سپر ٹیکس کا سارا پیسہ وفاقی مجموعی بجٹ میں جاتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ وفاقی مجموعی بجٹ کو کس طرح استعمال کرنا ہے یہ آرٹیکل 175 میں بتایا گیا ہے۔ رضا ربانی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپر ٹیکس کی رقم پہلے وفاقی مجموعی بجٹ میں جائے گی، سپر ٹیکس کے حوالے سے 2016ء کے دیباچے میں لکھا ہوا ہے کہ رقم پہلے وفاقی مجموعی بجٹ میں جائے گی۔
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے سپر ٹیکس سے متعلق کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔ وکیل ایف بی آر رضا ربانی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔