جنوبی ایشیا ایک بار پھر جنگ کے دہانے پر کھڑا دکھائی دیتا ہے۔ سفارتی دروازے بند ہو رہے ہیں، آدھی رات کو جاری ہونے والے بیانات اور مسلسل وار روم میٹنگز خطے میں غیر یقینی صورتحال کو بڑھا رہے ہیں۔ دنیا بھر کی نظریں اس وقت بھارت اور پاکستان پر جمی ہوئی ہیں، جو امن اور تصادم کے درمیان جھولتے دکھائی دے رہے ہیں۔ موجودہ صورتحال نہایت تشویشناک ہے اور عالمی برادری سے فوری مداخلت کی متقاضی ہے تاکہ نئی دہلی کو جارحیت کی راہ سے ہٹایا جا سکے۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے حالیہ پہلگام واقعے کے بعد اپنے رہائش گاہ پر سیکیورٹی اجلاس طلب کیا، جس میں فوجی قیادت کو مکمل "آپریشنل آزادی" دی گئی۔ لیکن یہ فیصلہ پاکستان کے لیے نہیں بلکہ بھارتی ووٹرز کو مطمئن کرنے کے لیے کیا گیا معلوم ہوتا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب بھارتی میڈیا کا جنگی جنون اپنے عروج پر ہے۔
پاکستان نے پہلگام واقعے کی شفاف تحقیقات کے لیے غیر جانبدار ماہرین پر مشتمل کمیشن بنانے کی پیشکش کی، جسے بھارت نے مکمل طور پر نظرانداز کر دیا۔ یہ خاموشی خود ایک پیغام ہے کہ نئی دہلی کا مقصد نہ تو سچائی تک پہنچنا ہے اور نہ ہی انصاف، بلکہ صرف سیاسی مقاصد کے لیے طاقت کا مظاہرہ کرنا ہے۔
دوسری جانب، ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے ایک اہم پریس کانفرنس میں بھارت کے پاکستان میں سرحد پار دہشت گردی میں ملوث ہونے کے ناقابل تردید شواہد پیش کیے۔ اسی روز رات گئے وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے ایک ٹی وی خطاب میں قوم کو خبردار کیا کہ بھارت اگلے "24 سے 36 گھنٹوں" میں حملہ کر سکتا ہے۔ یہ پیغام بظاہر عالمی رہنماؤں کے لیے تھا تاکہ وہ نئی دہلی کو جارحانہ اقدامات سے روکنے میں کردار ادا کریں۔
زیادہ تشویشناک پہلو یہ ہے کہ بھارت میں ذمہ دار آوازیں مکمل طور پر غائب ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں مودی حکومت کی پالیسیوں پر سوال اٹھانے کے بجائے خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے انہیں ایک کھلا چیک دے دیا گیا ہو۔ ایسے وقت میں جب ایک غلطی پورے خطے کو جلا سکتی ہے، کوئی یہ پوچھنے والا نہیں کہ ثبوت کیا ہیں، نتائج کیا ہوں گے، اور یہ آگ کہاں تک پہنچ سکتی ہے؟
سب سے بڑا خطرہ صرف ایک اور جنگ کا نہیں، بلکہ غلط اندازے کا ہے۔ ایک لوڈڈ بندوق سے زیادہ خطرناک چیز کوئی نہیں ہوتی — ایک غلطی، ایک جلد بازی میں کھینچی گئی ٹریگر، یا ایک جہاز جو سرحد پار کر جائے، دنیا کو ایسی تباہی میں دھکیل سکتا ہے جس پر بعد میں سب کو افسوس ہوگا۔
اسی دوران اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس کا وزیراعظم شہباز شریف اور بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر سے رابطہ اور ثالثی کی پیشکش خوش آئند ہے، مگر صرف ثالثی کی پیشکش کافی نہیں، جب تک دونوں فریقین کو بٹھا کر عملی مذاکرات نہ کروائے جائیں۔
آج دنیا کو یہ سمجھنا ہوگا کہ بھارت ہر قدم بات چیت سے دور اور محاذ آرائی کی طرف اٹھا رہا ہے، اور یہ راستہ نہ صرف خطے بلکہ پوری دنیا کے لیے خطرناک ہے۔ اگر بھارت نے جنگی سازشوں پر چلنے کا فیصلہ کر لیا ہے، تو پاکستان تیار ہے — مگر اصل سوال یہ ہے کہ کیا دنیا تماشائی بنے رہنے کے لیے تیار ہے، یا وہ اس ممکنہ تباہی کو روکنے کے لیے سنجیدہ اقدام کرے گی؟