فاطمہ حسونہ جو گزشتہ 18 ماہ سے غزہ میں جنگ کی تصویر کشی کر رہی تھیں اور حالیہ دستاویزی فلم کا مرکزی موضوع تھیں، ایک اسرائیلی فضائی حملے میں اپنے خاندان کے 10 افراد کے ساتھ جام شہادت نوش کرگئیں۔
غزہ میں رہنے والی ایک نوجوان فوٹو جرنلسٹ کی حیثیت سے فاطمہ حسونہ کو معلوم تھا کہ موت کسی بھی وقت اس کے دروازے پر دستک دے سکتی ہے۔ پچھلے 18 ماہ میں انہوں نے فضائی حملوں، اپنے گھر کی تباہی، مسلسل بے دخلی اور اپنے 11 عزیزوں کی شہادت کو دستاویزی شکل میں محفوظ کیا۔ وہ صرف یہی چاہتی تھیں کہ ان کی موت خاموشی سے نہ ہو۔
شہادت سے قبل انہوں نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ اگر میں مر جاؤں تو میری موت گونجدار ہو، میں محض بریکنگ نیوز یا ایک ہجوم میں شمار ہونے والا نمبر نہ بنوں۔ میری موت ایسی ہو کہ دنیا اسے سنے، ایک ایسا اثر چھوڑے جو وقت کے ساتھ باقی رہے، اور ایک ایسی تصویر جو نہ وقت دفن کر سکے نہ کوئی جگہ۔
بدھ کے روز، اپنی شادی سے صرف چند دن پہلے، 25 سالہ فاطمہ حسونہ شمالی غزہ میں اپنے گھر پر ہونے والے اسرائیلی فضائی حملے میں امر ہوگئی ۔ ان کے خاندان کے 10 افراد، جن میں ان کی حاملہ بہن بھی شامل تھی، اس حملے میں جان کی بازی ہار گئے۔
اسرائیلی فوج کا کہنا تھا کہ یہ حملہ حماس کے ایک رکن کو نشانہ بنانے کے لیے کیا گیا تھا، جو اسرائیلی فوجیوں اور شہریوں پر حملوں میں ملوث تھا۔
ان کی موت سے صرف 24 گھنٹے قبل اعلان ہوا تھا کہ ان پر بنائی گئی ایک دستاویزی فلم فرانس کے ایک آزاد فلمی میلے میں نمائش کے لیے پیش کی جائے گی، جو کانز فلم فیسٹیول کے متوازی چلتا ہے۔
ایرانی فلم ساز سپیدہ فارسی کی ہدایت کاری میں بننے والی فلم "اپنی روح ہاتھ میں لے کر چل پڑو" غزہ کی مشکلات اور فلسطینیوں کی روزمرہ زندگی کی عکاسی کرتی ہے، جس میں حسونہ اور سپیدہ فارسی کے درمیان ویڈیو گفتگو شامل ہے۔ فارسی نے کہا کہ وہ میری آنکھیں تھیں غزہ میں ایک شعلہ بیاں اور زندگی سے بھرپور لڑکی ۔ میں نے اس کی ہنسی، اس کے آنسو، اس کی امیدوں اور اس کا غم فلمایا۔
فارسی نے مزید کہا کہ وہ روشنی کی مانند تھیں، بے حد باصلاحیت۔ جب آپ فلم دیکھیں گے، تو سمجھ جائیں گے۔ میں نے ان سے چند گھنٹے پہلے ہی بات کی تھی کہ فلم کانز میں دکھائی جائے گی، اور انہیں دعوت دی تھی۔
فارسی جو خود فرانس میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہی ہیں، نے بتایا کہ وہ حسونہ کی جان کے حوالے سے خوفزدہ تھیں، لیکن یہ بھی کہا میں نے خود سے کہا کہ اگر وہ خود نہیں ڈرتی تو مجھے بھی خوفزدہ ہونے کا حق نہیں۔ میں نے اس کی قوت اور اس کے غیر متزلزل یقین سے ہمت لی۔
انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ حسونہ کو ان کے فوٹو جرنلزم کی شہرت اور حالیہ دستاویزی فلم میں شرکت کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا ہے۔
غزہ حالیہ تاریخ میں صحافیوں کے لیے سب سے خطرناک جگہ بن چکی ہے ۔ جہاں 2023 سے اب تک 200 سے زائد صحافی مارے جا چکے ہیں۔