معیشت کے آنگن میں اُداسی کا بسیرا تھا۔ پاکستان، ایک زخمی شیر کی مانند، اپنے زخم چاٹتا، تیز دھوپ میں سائے کا متلاشی، اُس مسافر کی طرح دکھائی دیتا تھا جو صحرا میں پانی کی آخری بوند تلاش کر رہا ہو۔ اس کی سانسیں پھولی ہوئی تھیں، ہونٹوں پر لرزتی التجائیں تھیں، اور بین الاقوامی بازاروں میں اس کا ذکر ایک بدنصیب سوداگر کے مانند ہونے لگا تھا، جو اپنا سب کچھ گنوا بیٹھا ہو۔
زرمبادلہ کے ذخائر، جن پر کسی زمانے میں فخر کیا جاتا تھا، آنکھوں کے اشکوں کی مانند خشک ہوچکے تھے۔ معیشت کی نبض دھیمی ہوچلی تھی، ہر دھڑکن جیسے کسی انجانے خطرے کی خبر دیتی ہو۔ ایک سنّاٹا سا طاری تھا کہ فلم "شعلے" کا رحیم یعنی اوتار کشن ہنگل یاد آجاتا۔
یہ اتنا سنّاٹا کیوں ہے بھائی؟
پھر اچانک ایک دن جیسے بند قُفل کھل گئے اور خزاں رسیدہ زمین پر کسی بہار نے دستک دی۔ ایک دریا رواں ہوا۔ ہاں! یہ کوئی معمولی دریا نہ تھا، یہ ڈالروں کا دریا تھا، اوورسیز پاکستانیوں کے اشکوں، سانسوں، محبت اور محنت سے اُبلتا ہوا دریا۔
ایک ہی ماہ میں چار ارب سے زائد ڈالر وطن کی گود میں آگرے۔ ایک شور سا مچ گیا۔ یہ دریا کہاں سے آیا؟ کون لوگ ہیں جو وطن سے ہزاروں میل دور، اجنبی فضاؤں میں اپنا آپ گنواتے رہے اور پھر بھی پاکستان کو خوابوں کی خیرات دیتے رہے؟ یہ وہی لوگ ہیں جو نیندوں کے عوض روٹیاں خریدتے ہیں، جو اپنوں سے دور رہ کر پردیس کی سنگلاخ راتوں میں وطن کی یاد میں تڑپتے ہیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے اُن کی قربانیوں کو سراہا؟ کیا ہم نے کبھی اُن کے درد کو محسوس کیا؟ اُن کی محنت کو فقط زر کے ترازو میں تولا؟ وہ جنہوں نے اپنے ارمان گروی رکھ کر اس ملک کو سانسیں دیں، کیا ہم نے انہیں وہ عزت دی جس کے وہ مستحق تھے؟
دو سال قبل دیوالیہ پن کا خوف ہمارے سروں پر منڈلا رہا تھا۔ ہر دن ایک نئی بے یقینی، ہر رات ایک نیا اندیشہ۔ اور اب؟ اب سٹیٹ بینک کے مطابق زرمبادلہ کے ذخائر چودہ ارب ڈالر تک جا پہنچیں گے۔ لیکن کیا یہ محض اعداد و شمار کا کھیل ہے؟ یا واقعی کچھ بدلا ہے؟
یہ چودہ ارب ڈالر، جنہیں ہم فخریہ بیان کرتے ہیں، کیا واقعی اُن فٹ پاتھ پر بیٹھے مزدور کے گھر تک پہنچیں گے جس کے بچوں کو سکول کی فیس دینے میں دشواری ہے؟ کیا یہ دولت اُن بیواؤں کے ہاتھوں تک جائے گی جو ہر مہینے پنشن کے ایک خط کے انتظار میں گزرجاتی ہیں؟ یا پھر یہ بھی اُن ہی نالیوں میں بہہ جائے گی، جن میں کرپشن کا گند دہائیوں سے بہتا آیا ہے؟
مہنگائی کا دیو آج بھی زندہ ہے۔ بجلی کی قیمتوں کے قصے، ہر بجٹ میں، ایک پرانی فلم کی طرح دُہرائے جاتے ہیں۔ "اس بار بجلی سستی ہوگی، مہنگائی کم ہوگی" ، یہ جملہ اب ایک مذاق سا بن چکا ہے۔ کیونکہ ہر بار بجلی کی قیمتیں بڑھتی ہیں اور مہنگائی اوپر چڑھ جاتی ہے۔ عوام ہر بار ایک نئے وعدے کی چادر اوڑھ کر نیند کی امید باندھتے ہیں اور پھر ہر بار بے نیند صبحوں کا سامنا کرتے ہیں۔
پاکستانی ٹیکسٹائل کی صنعت جو کسی وقت وطن کی معاشی ریڑھ کی ہڈی تھی، اب دم توڑ رہی ہے۔ امریکی ٹیرف کی تیز ہوا نے اسے جھلسا دیا ہے۔ کپاس کی کھیتیاں سنسان پڑی ہیں، فٹ بال بنانے والے شہر خاموش ہورہے ہیں اور کھیل کے میدان، جہاں کبھی قہقہے گونجتے تھے، اب تنہائی کی بانسری بجاتے ہیں۔ کیا حکومت کے پاس کوئی حکمت عملی ہے؟ یا ہم فقط ایک اور جنازہ اٹھانے کی تیاری کر رہے ہیں؟
اسلام آباد کے ایوانوں میں ایک کنونشن منعقد ہوا۔ اس کا عنوان تھا، "اوورسیز پاکستانیوں کا اعزاز"۔ اس کنونشن میں تقریریں ہوئیں، وعدے ہوئے۔ نوے دن میں انصاف، چوبیس گھنٹوں میں سرمایہ کاری کی منظوری۔ یہ سب کچھ بہت سنا سنا سا لگا۔ جیسے ہر کنونشن کے بعد کچھ وعدے دیواروں پر لٹکا دیے جاتے ہیں، اور پھر وقت کی گرد انہیں مٹادیتی ہے۔
کیا ہماری عدالتیں نوے دن میں فیصلے کرسکتی ہیں، حالانکہ وہ نوے سال میں انصاف نہیں دے پاتیں؟ کیا ہماری بیوروکریسی نے کبھی چوبیس گھنٹوں میں کوئی کام کیا ہے، سوائے چائے کی پیالی کے حکم کے؟ یہ سب کچھ سُن کر پردیس میں بیٹھے پاکستانیوں کے دلوں میں کیسا طوفان اٹھتا ہوگا؟
اوورسیز پاکستانیوں کو ہم "ریڑھ کی ہڈی" کہتے ہیں۔ یہ محاورہ اب اتنا بوسیدہ ہوچکا ہے کہ اس کی معنویت بھی کھوگئی ہے۔ کیونکہ ہڈیوں کا کوئی ذکر اُس وقت نہیں کرتا، جب ان پر ضرب لگائی جائے۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کے پلاٹوں پر قبضے ہوتے ہیں، جن کے عزیزوں کو پولیس ستاتی ہے، جن کے بچے اپنے ہی ملک میں اجنبی بن کر رہتے ہیں۔ کیا یہ انصاف ہے؟
اب کہا جا رہا ہے کہ پارلیمنٹ میں ان کی نشستیں مختص ہوں گی۔ دوہری شہریت رکھنے والوں کو اختیارات دیے جائیں گے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ نشستیں ان کے دکھوں کا مداوا اور زخموں کا مرہم بن سکیں گی؟ کیا یہ پالیسیاں ان کے بکھرے خوابوں کو سمیٹ سکیں گی؟ یا یہ بھی ایک چال ہے، سیاسی، وقتی اور مفاد پرستانہ چال؟
حقیقت یہی ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں کا خون ہماری معیشت کی رگوں میں دوڑتا ہے۔ اُن کے بھیجے گئے ڈالر ہماری اکانومی کی سانسوں کو جاری رکھتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ ہم اس خون کو کیا بنائیں گے؟ ایک تریاق، جو ہمیں نئی زندگی دے؟ یا زہر، جو آہستہ آہستہ ہمیں اندر سے کھا جائے؟ جواب ہمارے ہی ہاتھ میں ہے۔
درخت اپنی جڑوں سے جیتا ہے۔ اگر جڑیں سلامت ہوں تو پتے ہرے رہتے ہیں، پھل میٹھے ہوتے ہیں۔ یہ ڈالر، یہ قربانیاں اور سمندر پار پاکستانیوں کی یہ محبتیں ہماری جڑیں ہیں۔ اگر ہم نے ان جڑوں کو کاٹ دیا تو ایک دن یہ درخت بھی گر جائے گا، اور ہم اُس کی چھاؤں کو ترسیں گے، جو کبھی ہمارے سروں پر سایہ کیے ہوئے تھی۔
سورج ڈوب چکا ہے مگر صبح کی اُمید اب بھی باقی ہے۔ بس شرط یہ ہے کہ ہم آنکھیں کھولیں، دھوکہ نہ کھائیں اور سچ کو پہچانیں۔ وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے محسنوں کو عزت دیں، اُن کی آواز سنیں اور اُن کے خوابوں کو حقیقت کا روپ دیں۔ تبھی وہ دریا، جو ڈالر کے روپ میں بہا ہے، ہمیں ایک نئی سمت دے سکے گا، ہمیں ایک نئی زندگی اور ایک نیا پاکستان دے سکے گا۔