برطانوی نشریاتی ادارے نے دعویٰ کیا ہے کہ افغان طالبان کی جانب سے افغانستان میں5 لاکھ سے زائد چھوڑے گئے امریکی ہتھیار عسکریت پسند گروپوں کو بیچ دیئے گئے ہیں۔
ذرائع نے برطانوی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا ہے کہ طالبان نے 2021 میں افغانستان پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے بعد دس لاکھ کے قریب ہتھیار اور فوجی ساز و سامان پر قبضہ کیا۔ اس میں زیادہ تر سامان امریکہ کی مالی معاونت سے فراہم کیا گیا تھا۔
طالبان کے ملک گیر پیش قدمی کے دوران افغان فوجی یا تو ہتھیار ڈال کر فرار ہو گئے یا لڑائی کے بغیر پسپا ہو گئے، جس کے نتیجے میں یہ ہتھیار اور گاڑیاں افغان طالبان کے ہاتھ لگ گئیں کچھ سامان امریکی فوج کی جانب سے پیچھے چھوڑا گیا تھا ان ہتھیاروں میں M4 اور M16 رائفلیں شامل تھیں جو امریکی ساختہ تھیں، جبکہ کچھ پرانے ہتھیار بھی افغان فوج کے زیر استعمال رہے تھے۔
برطانوی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ گزشتہ سال قطر کے دارالحکومت دوحہ میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی پابندیوں سے متعلق کمیٹی کے ایک بند کمرہ اجلاس میں طالبان نے اعتراف کیا کہ کم از کم آدھا سامان لاپتہ ہےکمیٹی کے ایک رکن نے تصدیق کی کہ مختلف ذرائع سے بھی یہ بات سامنے آئی ہے کہ پانچ لاکھ ہتھیاروں کا کچھ پتا نہیں ہے۔
فروری میں جاری کردہ ایک اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا کہ القاعدہ سے منسلک گروپ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، ازبکستان کی اسلامی تحریک، مشرقی ترکستان کی اسلامی تحریک اور یمن کی انصار اللہ طالبان سے حاصل کردہ ہتھیار استعمال کر رہے ہیں یا بلیک مارکیٹ سے خرید رہے ہیں۔
افغان طالبان حکومت کے نائب ترجمان حمد اللہ فطرت نے ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ تمام ہلکے اور بھاری ہتھیار محفوظ مقامات پر موجود ہیں ہم اسمگلنگ یا نقصان کے دعووں کو مسترد کرتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی 2023 کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ طالبان نے مقامی کمانڈروں کو قبضے میں لیے گئے امریکی ہتھیاروں میں سے 20 فیصد رکھنے کی اجازت دی تھی ان کمانڈروں کو طالبان سے وابستہ تو سمجھا جاتا ہے لیکن وہ اپنے علاقوں میں کافی حد تک خودمختار ہوتے ہیں۔کمانڈرز اپنی طاقت بڑھانے کے لیے ایک دوسرے کو ہتھیار تحفے میں دیتے ہیں اور بلیک مارکیٹ اب بھی طالبان کے لیے ہتھیاروں کا بڑا ذریعہ ہے۔
افغانستان کی تعمیر نو کے نگران امریکی ادارے سگار کے مطابق ہتھیاروں کی تعداد ان ذرائع سے کم ہے لیکن 2022 کی رپورٹ میں اس نے تسلیم کیا کہ درست معلومات حاصل نہیں ہو سکیں۔ اس کی وجہ مختلف امریکی اداروں کی جانب سے سالوں کے دوران سامان کی فراہمی اور ریکارڈ کی عدم موجودگی بتائی گئی۔
رپورٹ میں امریکی محکمہ دفاع کے ہتھیاروں کی ٹریکنگ کے نظام کو ناکافی قرار دیا گیا اور محکمہ خارجہ پر الزام لگایا گیا کہ اس نے فراہم کردہ سامان اور فنڈنگ سے متعلق معلومات محدود، غلط اور تاخیر سے دیں، جس کی محکمہ خارجہ نے تردید کی۔
یہ معاملہ امریکہ میں سیاسی رنگ بھی اختیار کر چکا ہے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کئی بار کہہ چکے ہیں کہ وہ افغانستان سے ہتھیار واپس لیں گے۔ ان کے مطابق امریکہ نے افغانستان میں 85 ارب ڈالر کے جدید ہتھیار چھوڑےافغانستان اس وقت دنیا کا سب سے بڑا عسکری سامان بیچنے والا ملک بن چکا ہے کیونکہ وہ ہمارا چھوڑا ہوا سامان بیچ رہے ہیں۔ ہم یہ واپس لینا چاہتے ہیں، چاہے قیمت دے کر لینا پڑے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے افغان ریاستی ٹی وی پر کہا کہ ہم نے یہ ہتھیار پچھلی حکومت سے حاصل کیے ہیں اور ملک کے دفاع کے لیے ان کا استعمال کریں۔
امریکی محکمہ دفاع نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ افغانستان چھوڑنے سے پہلے ہتھیار ناکارہ بنا چکے ہیں لیکن طالبان نے ان ہتھیاروں کی مدد سے اپنی عسکری طاقت میں اضافہ کیا اور مزاحمتی گروہوں پر برتری حاصل کی، جن میں قومی مزاحمتی محاذ اور داعش خراسان شامل ہیں سابق افغان عہدیدار نے بتایا کہ قندھار کے گوداموں میں اب بھی سینکڑوں بغیر استعمال شدہ ہموی گاڑیاں، بکتر بند گاڑیاں (MRAPs) اور بلیک ہاک ہیلی کاپٹر موجود ہیں۔
طالبان کی ان ہیلی کاپٹروں کو چلانے کی صلاحیت محدود ہے کیونکہ ان کے پاس تربیت یافتہ عملہ نہیں ہے لیکن وہ ہموی گاڑیاں اور چھوٹے ہتھیار اپنے آپریشنز میں کامیابی سے استعمال کر رہے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان سے ہتھیار واپس لینے پر بضد ہیں، سگار کے سابق سربراہ جان سوپکو کہتے ہیں کہ ایسا کرنا بے فائدہ ہوگا کیونکہ اس پر آنے والی لاگت ان ہتھیاروں کی قیمت سے زیادہ ہو گی فی الحال یہ واضح نہیں کہ امریکہ واقعی کوئی اقدام کرے گا یا نہیں، لیکن خطے میں اسلحے کی ترسیل اور شدت پسند گروپوں کو رسائی کے خطرات بدستور موجود ہیں۔