سرزمینِ پاکستان کی مٹی کے ذروں میں تاریخ کی مہک، تمدن کی روشنی اور فطرت کی سخاوت پوشیدہ ہے۔ یہ ایک ایسی دھرتی ہے، جو اپنے دامن میں چاندی، سونا، تانبا، پتھر، انمول دھاتوں اور امکانات کے بے شمار موتی سمیٹے بیٹھی ہے۔ پاکستان کی سرزمین گویا فطرت کی ایک ایسی صندوقچی ہے جس میں قدرت نے بے بہا خزانے رکھ چھوڑے ہیں۔ غور سے جھانکا جائے تو لگتا ہے کہ خاکِ وطن کی گود میں سنہرے خواب پل رہے ہوں، مگر سوال یہ ہے کہ یہ خزانے کیوں خوابیدہ ہیں؟ یہ دولت زمیں کی تہہ میں کیوں دبکی ہوئی ہے اور ہم اہلِ زمین کیوں فقر و فاقہ کی دھوپ میں جلتے پھرتے ہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ یہ خزانے نہ صرف چمکتے ہیں، بلکہ قوموں کی تقدیر بدلنے کا ہنر بھی رکھتے ہیں۔ سوال مگر یہ ہے کہ ہم نے اُن کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا؟ کیا ہم نے اُن خزانوں کو دریافت کرنے کی کوئی سنجیدہ سعی کی، یا پھر اپنے خوابوں پر مٹی ڈال کر آرام سے سوگئے؟ اس سوال کا جواب لیے پہلی دستک اسلام آباد میں منعقد ہونے والے منرل انویسٹمنٹ فورم نے دی ہے۔ ایک ایسی دستک جو ہمارے اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑنے آئی ہو۔ یہ ایک آہٹ ہے جسے ان خوابیدہ خزانوں کو جگانے کی سعی قرار دیا جاسکتا ہے۔ مگر کیا یہ آہٹ کسی بیداری کی نوید ہے یا پھر ایک اور سرکاری تقریب کی بازگشت، جو وقت کی دھول میں گم ہوجائے گی؟
بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ جیسے اقتدار کے ایوانوں نے انگڑائی لی ہے اور کوئی واقعی خواب سے بیدار ہوا ہے۔ وزیرِاعظم کا یہ کہنا کہ "ہم قرضوں کی زنجیریں توڑ سکتے ہیں" بظاہر ایک سیاسی جملہ ہے، لیکن اگر اس میں اخلاص کا جوہر ہو تو یہ جملہ تاریخ کا عنوان بھی بن سکتا ہے۔ قرضوں سے نجات ایک خواب کی بازگشت ہے، جو ہر پاکستانی کے دل میں کب سے بسی ہے۔ مگر خواب اور تعبیر کے درمیان عمل کا ایک لق و دق صحرا پڑتا ہے، جسے عبور کرنے کے لیے ارادہ، قربانی، اور دیانت کی بلند لہریں درکار ہوتی ہیں۔
وادیٔ سندھ کے میدان ہوں یا چاغی کے پہاڑ، گلگت بلتستان کی سنگلاخ چٹانیں ہوں یا تھر کے ریگزار، قدرت نے ہر گوشے میں کوئی نہ کوئی راز چھپا رکھا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے قدرت نے پاکستان کو ہر پہلو سے نوازا، مگر ہم نے ہمیشہ اپنی آنکھیں بند کیے رکھیں، اپنے ہاتھ پیچھے باندھے رکھے، اور اپنی سوچ کو تنگ نظری کی زنجیروں میں جکڑے رکھا۔ چاغی کے سنہرے ذخائر، ریکوڈک کی پہاڑیاں اور گلگت بلتستان کی کانیں آج بھی ہمارے قدموں کو تک رہی ہے، جیسے کوئی ماں اپنے سست بیٹے کو دیکھ کر آہیں بھرتی ہے۔
بلوچستان کی سنگلاخ چٹانوں میں چھپے ہوئے خزانے وہاں کے لوگوں کی آنکھوں میں ایک سوال بن کر جھانکتے ہیں کہ یہ خزانہ کس کا ہے؟ کیا یہ ہماری قسمت سنوارے گا یا کسی اور کی تجوری کا حصہ بن جائے گا؟ جب تک ریاست مقامی آبادی کو شریکِ احساس نہیں بناتی، اُس وقت تک ہر ترقیاتی منصوبہ شکوک کے گرداب میں گھومتا رہے گا۔
بین الاقوامی کمپنیاں آئیں، ضرور آئیں، لیکن دوستی اور سوداگری میں فرق روا رکھنا ہوگا۔ یہ کمپنیاں جذبۂ خیرسگالی سے نہیں، شرحِ منافع کی کشش سے آتی ہیں۔ ہمیں اپنے مفاد کی پاسبانی خود کرنی ہے۔ معاہدے وہی کامیاب ہوتے ہیں جن میں انصاف کا وزن زیادہ ہو، اور استحصال کا سایہ نہ ہو۔
غیروں کی دلچسپی اچھی بات ہے، مگر کیا ہم نے تاریخ سے سبق سیکھا؟ افغانستان کی وادیاں بھی معدنیات سے بھرپور تھیں، مگر غیر ملکی قوتوں کے لالچ نے اُسے کھنڈر میں بدل دیا۔ کیا ہم بھی یہی راہ اختیار کریں گے، یا پھر چین کی مانند خود کفالت کی شمع روشن کریں گے؟
فورم میں ٹیکنالوجی کے استعمال کی بات ہوئی تو دل میں سوال اُٹھا کہ کیا ہماری جامعات ایسی چراگاہیں ہیں جہاں تحقیق کے بھوکے اپنی بھوک مٹاتے ہیں؟ یا وہاں محض ڈگریاں بانٹی جاتی ہیں؟ کیا ہمارے نوجوان وہ ہنر لے کر اٹھیں گے جو سونا نکال سکے؟ یا وہ ہنر اُنہیں بھی بیرونِ ملک کی گلیوں میں کھو دے گا؟ کیا ہم نے اپنے تعلیمی اداروں کو اس لائق بنایا ہے کہ وہ ایسے ماہرین پیدا کریں جو زمین کے سینے میں چھپے خزانوں کو احترام، مہارت اور دیانت سے نکال سکیں؟ اگر نہیں، تو ہمیں پہلا قدم اسی سمت اٹھانا ہوگا ورنہ ہم صرف دوسروں کے تجربات کی کہانیاں سنتے رہیں گے۔
سندھ کا کوئلہ، خیبر کا سنگ مرمر، پنجاب کی نمک کی کانیں، گلگت کے نیلم و یاقوت، بلوچستان کا تانبہ، یہ سب وہ نعمتیں ہیں جن پر اقوامِ عالم کی نظریں ہیں، مگر افسوس کہ ہم نے انہیں کبھی اپنی قسمت کا چراغ بنانے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔
وفاق اور صوبوں کے درمیان اعتماد کا رشتہ وہ ستون ہے جس پر معدنی ترقی کا محل کھڑا ہوسکتا ہے۔ جب تک صوبوں کو اُن کے وسائل کا منصفانہ حصہ نہ ملے، تب تک ہر منصوبہ سیاست کی گرد میں اَٹکا رہے گا۔ ہمیں اِس روش سے نکلنا ہوگا۔
سیاسی قیادت کی تقریریں اپنی جگہ، مگر قومیں تقریروں سے نہیں، فیصلوں سے بنتی ہیں۔ اگر یہ فورم بھی محض ایک رسمی تقریب بن کر رہ گیا، تو آنے والی نسلیں ہم پر ہنسیں گی۔ اگر یہ خالی دعووں کا ایک اور مظاہرہ تھا، تو یہ دریچے جو کھلے تھے، پھر بند ہوجائیں گے۔
یہ دھرتی اگر سونا اگل سکتی ہے، تو وہ دن بھی ضرور آسکتا ہے جب ہماری معیشت قرض کی زنجیروں سے آزاد ہو کر دنیا کے افق پر ایک درخشندہ ستارے کی طرح چمکے گی۔ لیکن شرط صرف اتنی سی ہے کہ ہم اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کریں اور اپنے خوابوں کو تعبیر کی جانب لے جانے کا حوصلہ پیدا کریں۔
سیاسی قیادت اگر واقعی اپنے مفاد سے نکل کر قومی مفاد کے دائرے میں قدم رکھ لے، تو یہی معدنیات ہماری معیشت کو نیا آسمان دے سکتی ہیں۔ شفاف پالیسیاں، مضبوط ادارے، تربیت یافتہ افرادی قوت اور قومی سوچ، یہی وہ چار ستون ہیں جن پر پاکستان کی معدنی معیشت کی بلند عمارت قائم ہوسکتی ہے۔
معدنیات محض دھاتیں نہیں ہوتیں، یہ کسی قوم کی تقدیر کا تعویذ ہوتی ہیں۔ مگر یہ تعویذ تب ہی کارگر ہوتا ہے جب اسے نیت کے پانی سے دھو کر پہنا جائے۔ معدنیات قوموں کی تقدیر کے چراغ ہیں، جنہیں روشن کرنے کے لیے ہمیں مفاد پرستی، بدعنوانی اور غفلت کے اندھیروں سے نکلنا ہوگا۔
اگر ہم نے اپنی پالیسیاں شفاف بنائیں، اپنے نوجوانوں کو علم سے لیس کیا اور اپنے مفادات کو قومی مفاد کے تابع کردیا، تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم ترقی کے اس سفر پر گامزن نہ ہوں جس کا آغاز ہمارے پیروں تلے بچھے خزانے سے ہوتا ہے۔
ورنہ؟
ورنہ یہ خزانے یونہی نیند کی آغوش میں پڑے رہیں گے، اور ہم؟ ہم صرف تاریخ کے صفحوں پر اپنی کوتاہیوں کی داستانیں لکھتے رہ جائیں گے۔
تعارف:
اس تحریر کے مصنف مصطفیٰ صفدر بیگ پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں اور آج کل میڈیا ٹیکنالوجیز سے وابستہ ہیں ، انہیں x.com پر فالو کیا جاسکتا ہے.