ایک بہترین سفارت کاری وہ ہوتی ہے جو جنگ کے خطرات کو کم کرے، قومی مفادات کا تحفظ کرے اور فریقین کے درمیان اعتماد کی فضا پیدا کرے۔ ایک اچھے سفارتکار کی سب سے بڑی خوبی اس کا صبر اور تحمل ہوتا ہے،وہ غصے یا جذبات کے زیرِ اثر فیصلے نہیں کرتا بلکہ ٹھوس حقائق اور دور اندیشی کے تحت قدم اٹھاتا ہے الفاظ کا محتاط استعمال اور نرم لہجہ اس کا ہتھیار ہوتے ہیں، کیونکہ سفارت کاری میں اکثر صرف ایک لفظ تعلقات بنا یا بگاڑ سکتا ہے۔ بہترین سفارت وہی سمجھی جاتی ہے جو ذاتی انا کی بجائے قومی مفاد کو مقدم رکھے اور ایسا رویہ اختیار کرے کہ دشمن بھی بات چیت کے دروازے بند نہ کرے۔
ایک بہترین اور سلجھائے ہوئے سفارتکار کو نہ صرف اپنی قوم کے مفاد کا علم ہونا چاہیے بلکہ دوسرے ملک کی تاریخ، ثقافت اور نفسیات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہےتاکہ وہ مؤثر طریقے سے بات چیت کر سکے۔ایک کامیاب سفارتکار اصولوں پر قائم رہتے ہوئے لچکدار رویہ رکھتا ہے اور جانتا ہے کہ کب سختی کرنی ہے اور کب نرمی اختیار کرنی ہے دراصل، سفارت کاری الفاظ کی وہ جنگ ہے جو امن کی راہیں کھولتی ہے اور بحران کو موقع میں بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
امریکہ ایران کی لفظی وار شدت اختیار کر چکی ہے، یہ لفظی وار دھمکیوں کے راستے سے گزر کر بلاواسطہ مذاکرات تک آئی اور اب وہ ایک بہترین حکمت عملی کے تحت ٹیبل ٹاک پر پہنچ چکی ہے ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی اور امریکی خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف عمان میں ہونے والے مذاکرات کی قیادت کرنے والے ہیں، ایسی صورتحال میں امریکن سفارت کار نے ہمیشہ دھمکی، جارحانہ اور ڈکٹیٹرشپ روایہ اختیار کیا لیکن ایرانی سفارت نے ملکی مفاد کو مقد م رکھا اور بہترین سفارت کاری کا ثبوت دیتے ہوئے بصیرت سے بھرپور حکمت عملی کیساتھ آگے بڑھتے رہے اور ثابت قدم رہے،اس میں سب سے بہترین کردار ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کا ہےکہ وہ ملکی مفاد کو مدنظر رکھ کر دانشمندانہ فیصلہ لیکر مذاکرات کی ٹیبل پر چلے گئے ایران میں بہت کم امید ہے کہ مذاکرات بہت آگے جائیں گے،لیکن سیاسی اسٹیبلشمنٹ کو عراقچی کی مہارت اور چالاکی سے ایران کی جانب سے کھیلنے کی صلاحیت پر اعتماد ہے۔
ایران میں مقیم تجزیہ کار سعید لیلاز نے کہا ہے کہ عراقچی صحیح وقت پر صحیح پوزیشن میں صحیح شخص ہے ایرانی سپریم لیڈر کی طرف سے مکمل اختیار اور جوہری مسئلے کے تمام پہلوؤں کے بارے میں گہری معلومات کے ساتھ وہ اسلامی جمہوریہ کی تاریخ کے سب سے طاقتور وزیر خارجہ میں سے ایک ہیں عراقچی نے 2015 میں جوہری معاہدے پر منتج ہونے والے مذاکرات میں کلیدی کردار ادا کرتے ہوئے سخت مذاکرات کے ماہر کے طور پر شہرت حاصل کی۔ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان بات چیت میں شامل مغربی سفارت کاروں نے انہیں سنجیدہ، تکنیکی طور پر علم رکھنے والا اور سیدھا سادا سفارت کار قرار دیا۔
1962 میں تہران میں ایک امیر مذہبی تاجر گھرانے میں پیدا ہوئے، 17 سال کی عمر تھی جب اسلامی انقلاب نے ایران کو تبدیل کیا امریکہ کی حمایت یافتہ شاہ کی خاندانی حکومت کے خاتمے اور ایک نئے مستقبل کے وعدے سے متاثر ہو کر اس نے عراق کے ساتھ 1980-88 کی خونریز جنگ میں لڑنے کے لیے اسلامی انقلابی گارڈ کورمیں شمولیت اختیار کی۔اس کے بعد 1989 میں ایران کی وزارت خارجہ میں شمولیت اختیار کی اور 2013 میں وزارت خارجہ کے ترجمان بننے سے پہلے 1999-2003 تک فن لینڈ اور 2007-11 تک جاپان میں سفیر کے طور پر خدمات انجام دیں ،برطانیہ کی کینٹ یونیورسٹی سے سیاست میں ڈاکٹریٹ کی اور 2013 میں نائب وزیر خارجہ مقرر ہوئے۔
عراقچی کی سب سے بہترین خوبی یہ ہے کہ وہ اندروانی معاملات کی سیاست نہیں کرتا حالانکہ ایرانی سپریم لیڈر امام خامنہ ای سے قریبی تعلقات ہونے کے باوجود اس نے خود کو دھڑوں کے درمیان سیاسی کشمکش اور اندرونی لڑائی سے دور رکھا ہےان کے سپریم لیڈر، پاسداران انقلاب اور ایران کے تمام سیاسی دھڑوں کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ ایک دیندار مسلمان جو اسلامی انقلاب کے نظریات پر پختہ یقین رکھتا ہے، عراقچی نے ایسے صدور کے تحت خدمات انجام دیں جن کی جبلتیں عملی سے سخت گیر ہیں۔