امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کیے گئے 'لبریشن ڈے' اقدام نے بظاہر پاکستان کو ایک مشکل صورتحال میں دھکیل دیا ہے۔ نئی امریکی تجارتی پالیسی کے تحت مختلف ممالک پر لگنے والے ٹیرف (محصولات) نے عالمی معیشت پر منفی اثرات ڈالے ہیں، اور پاکستان کو اب نقصانات سے بچنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنا ہوں گے۔ حکومت نے فوری طور پر پالیسی ردعمل تیار کرنے کی تیاری شروع کر دی ہے جبکہ مختلف اسٹیک ہولڈرز ممکنہ معاشی جھٹکے سے نمٹنے اور بین الاقوامی منڈی میں نئی راہیں تلاش کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
ٹرمپ کے تازہ ٹیرف ایسے بےرحم معاشی ہتھیار بن چکے ہیں جو ایک بے قابو اقتصادی جنگ میں استعمال ہو رہے ہیں۔ اس اعلان نے معاشی خودمختاری اور عالمی غلبے کے درمیان موجود باریک لکیر کو مزید دھندلا دیا ہے۔ کسی کو واضح طور پر یہ نہیں معلوم کہ یہ اقدامات محض آمدنی بڑھانے کے لیے کیے جا رہے ہیں یا کسی انتقامی جذبے کا اظہار ہیں۔ تاہم، یہ بات طے ہے کہ اس تجارتی جنگ میں دونوں جانب خسارے ہی ہوں گے۔
امریکہ بظاہر اس جنگ میں سبقت حاصل کرنے کے لیے پرعزم ہے، اور اس نے مختلف ممالک پر جوابی محصولات عائد کیے ہیں جو 10 فیصد کی بنیادی شرح سے بڑھ کر 54 فیصد تک جا پہنچے ہیں۔ امریکہ کے 180 سے زائد تجارتی شراکت دار اس کا نشانہ بنے ہیں، چاہے وہ دوست ہوں یا حریف، جنہیں ٹرمپ نے "دھوکہ دینے والے ممالک" قرار دیا۔ پاکستان بھی اس فہرست میں شامل ہے اور اسے 10 فیصد بنیادی ٹیرف کے ساتھ ساتھ 29 فیصد جوابی ٹیرف کا سامنا ہے، جو اس کی نازک معیشت کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔
پاکستان کو اب محض بقاء کی کوششوں سے باہر نکل کر نئی تجارتی راہیں اختیار کرنا ہوں گی۔ پرانے تجارتی راستے، جو اب ملک کے مفاد میں نہیں رہے، چھوڑ کر نئے شراکت دار اور برآمدی منڈیاں تلاش کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔ ساتھ ہی ضروری ہے کہ پاکستانی مصنوعات اور خدمات کو بین الاقوامی معیار کے مطابق بہتر بنایا جائے تاکہ وہ نئی منڈیوں میں جگہ بنا سکیں۔
یہ حقیقت تسلیم کرنی ہوگی کہ پاکستان کو اس تجارتی جنگ کے اثرات سے خود ہی نمٹنا ہوگا۔ محدود رسائی، غیر یقینی سرمایہ کاری، اور معاشی بے یقینی جیسے مسائل سر پر تلوار کی طرح لٹک رہے ہیں۔ امریکہ سے نرمی یا رعایت کی امید رکھنا خود فریبی کے مترادف ہوگا۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ براہِ راست واشنگٹن سے بات کرے اور جہاں ممکن ہو وہاں مذاکرات کے ذریعے اپنے لیے گنجائش پیدا کرے۔
عالمی منظرنامے میں تیزی سے تبدیلی آ رہی ہے، اس لیے پاکستان کو فوری اور جرات مندانہ فیصلے کرنا ہوں گے۔ علاقائی اتحاد قائم کرنے اور ان شراکت داروں سے روابط بڑھانے کی ضرورت ہے جنہیں پہلے نظر انداز کیا گیا۔ اگر پاکستان نے بروقت قدم نہ اٹھایا تو ایک اور ایسی جنگ کا شکار بن سکتا ہے، جو اس نے خود شروع نہیں کی۔