گندم کی قیمت رہنما قیمت مقرر نہ ہونے کے باعث فی الحال کاشتکار شدید مایوسی اور پریشانی کا شکار ہیں لیکن اس صورتحال میں وزیراعلیٰ پنجاب مریم نوازشریف کی جانب سے گندم کے کارشتکاروں کیلئے متعارف کروایا گیا پیکج یقینی طور پر ایک ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہے جس سے پریشان بیٹھے کسانوں کو راحت ضرور محسوس ہو گی ۔حکومت کی جانب سے سپورٹ پرائس کے اعلان سے گریز کے بعد کسانوں کو اپنی فصل 40 کلوگرام کے حساب سے محض 1,900 سے 2,500 روپے میں فروخت کرنا پڑ رہی ہے، جو گزشتہ سال کی مارکیٹ قیمت سے تقریباً آدھی ہے۔ کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ اس کم قیمت پر فصل بیچنے سے ان کی لاگت بھی پوری نہیں ہو رہی۔ ہر مرحلے پر "مڈل مین" (بیوپاری) کا کمیشن بھی کاشتکاروں کی آمدن مزید گھٹا دیتا ہے۔
لیکن مریم نوازشریف کی جانب سے جس پیکج کی منظوری دی گئی ہے اس کے تحت کسانوں کو براہ راست مالی امداد، اسٹوریج کی مفت سہولت اور ٹیکس میں رعایت فراہم کی جائے گی۔وزیراعلیٰ نے "گندم اسپورٹ فنڈ" کے تحت 15 ارب روپے کے فنڈز کی منظوری دی ہے جس سے کسانوں کو کسان کارڈ کے ذریعے براہ راست مالی معاونت فراہم کی جائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ کاشتکاروں کو ابیانہ اور فکسڈ ٹیکس میں بھی چھوٹ دی جائے گی۔مریم نواز نے کہا کہ گندم کو موسمی اثرات اور مارکیٹ کے دباؤ سے بچانے کے لیے کاشتکاروں کو 4 ماہ تک مفت اسٹوریج کی سہولت دی جائے گی۔ اس مقصد کے لیے پنجاب میں الیکٹرانک وئیر ہاؤسنگ ریسیٹ سسٹم متعارف کروایا جائے گا جس کے تحت گندم اسٹور کرنے والے کاشتکاروں کو الیکٹرانک رسید فراہم کی جائے گی، جسے وہ 24 گھنٹوں کے اندر بینک میں جمع کروا کر اپنی گندم کی مالیت کا 70 فیصد تک قرض حاصل کر سکیں گے۔
وزیراعلیٰ پنجاب نے گندم اور اس سے بنی اشیاء کی ایکسپورٹ کے لیے وفاقی حکومت سے رابطے کا فیصلہ بھی کیا ہے، جبکہ صوبائی و ضلعی سرحدوں پر گندم اور آٹے کی نقل و حمل پر عائد پابندیاں ختم کر دی گئی ہیں۔اس پیکج کے تحت پرائیویٹ سیکٹر کو ویئر ہاؤسز کی تعمیر و بحالی کے لیے بینک آف پنجاب کے ذریعے فنانسنگ فراہم کی جائے گی، جس کا 5 ارب روپے کا مارک اپ حکومت پنجاب خود ادا کرے گی۔وزیراعلیٰ مریم نواز نے پُرعزم انداز میں کہا کہ کسان کا نقصان نہیں ہونے دوں گی۔ کاشتکاروں کو ان کی گندم کا پورا معاوضہ ملے گا۔ وہ ہمارے بھائی ہیں اور ہم ہر قدم پر ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔
دوسری جانب صورتحال کو مزید سنگین بنانے والی خبر یہ ہے کہ اس سال گندم کی پیداوار میں 11 فیصد کمی کا خدشہ ہے۔ گزشتہ سال 31.6 ملین ٹن کی ریکارڈ پیداوار کے مقابلے میں اس سال کی پیداوار محض 27.5 ملین ٹن متوقع ہے۔ ملک میں گندم کی کھپت معمولی اضافے کے ساتھ 31.9 ملین ٹن تک رہنے کا امکان ہے۔
حیران کن طور پر، اس بگڑتی صورتحال میں حکومت نے گندم کی درآمد پر پابندی برقرار رکھی ہوئی ہے جبکہ صوبائی ذخائر بھی مقفل ہیں۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ آیا ملک میں موجود کوئی بچا ہوا ذخیرہ اس کمی کو پورا کرے گا یا پھر حکومت کو بالآخر گندم درآمد کرنے کی اجازت دینا پڑے گی؟اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو ملک ایک بار پھر گندم بحران کی طرف بڑھ رہا ہے، جس کا براہِ راست اثر عام شہریوں کے لیے آٹے کی قلت اور مہنگائی کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے۔ زرعی ماہرین اور کسان تنظیمیں حکومت سے مطالبہ کر رہی ہیں کہ گندم کے لیے کم از کم قیمت کا تعین فوری طور پر کیا جائے تاکہ کسانوں کو ان کی محنت کا جائز معاوضہ مل سکے اور گندم کی قلت کے خطرے سے بچا جا سکے۔