پاکستان نے یکم اپریل 2024 سے غیر قانونی افغان مہاجرین کی ملک بدری کا عمل شروع کرنے کا اعلان کیا ہے اور یہ فیصلہ 40 سال سے زائد عرصے تک افغان مہاجرین کے لیے پناہ گاہ فراہم کرنے کے بعد سامنے آیا ہے جس کے دوران پاکستان نے انہیں نہ صرف پناہ دی بلکہ روزگار اور تعلیم کے مواقع بھی فراہم کیے حالانکہ اسے خود شدید معاشی اور سیکیورٹی چیلنجز کا سامنا رہا۔
پاکستان نے گزشتہ چار دہائیوں سے زائد عرصے تک لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کی جو دنیا میں کسی ایک ملک کی جانب سے مہاجرین کو دی جانے والی سب سے طویل اور بڑی امداد ہے۔
دہشت گردی، معاشی بحرانوں اور سیکیورٹی خدشات کے باوجود پاکستان نے کبھی ان مہاجرین سے منہ نہیں موڑا اور ان کی عزت، سلامتی اور فلاح و بہبود کو یقینی بنایا۔
افغان تنازعے کے نتیجے میں پاکستان نے ہزاروں جانوں کی قربانی دی اور اربوں ڈالر کا معاشی نقصان اٹھایا لیکن اس کے باوجود مہاجرین کی مدد جاری رکھی۔
عالمی برادری نے پاکستان کی اس بے مثال سخاوت کو سراہا ہے تاہم اب پاکستان کا موقف ہے کہ طویل المدتی استحکام کے لیے ایک منظم، قانونی اور منصفانہ وطن واپسی کا عمل ناگزیر ہوگیا ہے۔
حکام کے مطابق دنیا مہاجرین کے حقوق کی بات تو کرتی ہے لیکن پاکستان نے عملی طور پر انہیں سہارا دیا، یہاں تک کہ جب عالمی امداد ناکافی تھی۔
پاکستان کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ عالمی برادری اس کی قربانیوں کو تسلیم کرے اور افغان مہاجرین کی محفوظ اور باوقار واپسی کے لیے تعاون کرے۔
حکام نے زور دیا کہ اس عمل کو بین الاقوامی شراکت داری کے ذریعے انجام دینا چاہیے نہ کہ پاکستان کو اپنے قوانین پر عمل درآمد کے لیے بلاجواز تنقید کا نشانہ بنایا جائے۔ یہ اقدام پاکستان کی خودمختاری اور ملکی استحکام کے لیے اہم قدم سمجھا جا رہا ہے۔