پاکستان میں لوگوں کی آڈیوز کون اور کیسے ٹیپ کر رہا ہے؟ اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاق سے ایک مہینے میں جواب مانگ لیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں آڈیو لیکس کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے نجم الثاقب کی درخواستوں پر سماعت، جسٹس بابر ستار نے اہم سوالات اٹھا دیئے۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان سے استفسار کیا کہ الیکٹرانک سرویلنس کیسے ہو رہی ہے اور کون کر رہا ہے؟
وزیراعظم آفس ،سابق چیف جسٹس کے اہلخانہ اور سپریم کورٹ کے جج کی آڈیوز لیک ہوئیں، پی ٹی اے کہہ رہی ہے اس نے کسی کو اجازت نہیں دی، تو کیا اٹارنی جنرل یہ پوزیشن لے رہے ہیں کہ حکومتی اتھارٹی کے بغیر یہ آڈیوز ٹیپ ہوئیں؟ ریاست پاکستان کو اعتماد میں لیے بغیر ایسا کرنا خوفناک ہے۔
جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیئے کہ بے نظیر بھٹو کیس ہماری تاریخ ہے، تب سے یہ ہوتا آ رہا ہے۔ ایک لیک آڈیو پر تو ایف آئی اے تفتیش بھی کر رہی ہے۔ پہلے یہ تو طے ہو جائے کہ وہ آڈیو کہاں سے آئی اور لیک کیسے ہوئی؟
اٹارنی جنرل نے کیس کی سماعت ان کیمرہ کرنے کی استدعا کی تو جسٹس بابر ستار نے کہا پہلے تحریری جواب جمع کرائیں پھر اس کو دیکھتے ہیں۔ مستقل بنیادوں پر پارلیمانی کمیٹیز مختلف اداروں کو ہدایات جاری کر رہی ہیں، یہ نہیں ہوسکتا کہ ہمارے دفاتر،چیمبرزمیں ہماری گفتگوبھی ریکارڈ ہو رہی ہو۔
عدالتی معاون میاں رضا ربانی نے کہا یہ درخواست ہی غیر مؤثر ہو چکی، بہتر ہےعدالت معاملہ واپس پارلمینٹ کو بھجوا دے، عدالتی معاون رضا ربانی نے تجویز دی کہ عدالت کو چاہیے ادارں میں اختیارات کی تقسیم کا معاملہ خود دیکھنے کے بجائے کمیٹی کو واپس بھیج دے۔
ایک فیکٹ تھا کہ اسمبلی تحلیل ہو گئی ہے وہ عدالت کے سامنے رکھا ہے۔ کورٹ اب اس معاملے کو آگے لے کے چلنا چاہ رہی ہے تو اس کی صوابدید ہے۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کو وزیر اعظم اورکابینہ سےبات کرکے ایک مہینے میں جواب جمع کرانے کی مہلت کے ساتھ سماعت ملتوی کر دی۔