پاکستان اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان 7 ارب ڈالر قرض پروگرام کی اگلی قسط کے لیے پہلے اقتصادی جائزہ کے مذاکرات کامیابی سے مکمل ہوگئے، لیکن اسٹاف لیول معاہدے تک بات نہیں پہنچ سکی۔
آئی ایم ایف نے 3 سے 14 مارچ تک جاری رہنے والے ان مذاکرات کے بعد اعلامیہ جاری کیا ہے جس میں پاکستان کی معیشت میں بہتری اور مضبوط کارکردگی کا اعتراف کیا گیا تاہم، زرعی آمدن پر ٹیکس، پوائنٹ آف سیل، اور ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم پر عملدرآمد میں ناکامی کے باعث اسٹاف لیول معاہدہ طے نہ ہو سکا۔
آئی ایم ایف مشن چیف نیتھن پورٹر نے کہا کہ اسٹاف لیول معاہدے تک پہنچنے کے لیے بات چیت تعمیری رہی اور تمام معاملات کو ورچوئل مذاکرات میں حتمی شکل دی جائے گی۔
انہوں نے پاکستان کی جانب سے قرض پروگرام کی شرائط پر نمایاں پیش رفت، سخت مالیاتی استحکام، قرضوں میں کمی، اور دیگر اصلاحات کو سراہا۔
نیتھن پورٹر نے مزید کہا کہ پاکستان کو ماحولیاتی تحفظ کے لیے بھی مالی مدد فراہم کی جا سکتی ہے۔
آئی ایم ایف کی شرائط اور حکومتی اقدامات
ذرائع کے مطابق حکومت نے آئی ایم ایف کی کئی شرائط مان لیں جن میں پیٹرولیم لیوی کو 60 سے بڑھا کر 70 روپے فی لیٹر کرنے، کاربن لیوی عائد کرنے، اور کیپٹیو پاور پلانٹس کے لیے گیس کی قیمتوں میں اضافہ شامل ہے۔
تاہم، عالمی مالیاتی ادارے نے ٹیکس اور توانائی کے شعبے میں مزید اصلاحات، زرعی آمدن سے ٹیکس وصولی میں پیش رفت، اور پوائنٹ آف سیل اور ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم پر مکمل عملدرآمد کا مطالبہ کیا ہے۔
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے سماء سے گفتگو میں کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ اگلے ہفتے فیصلہ کن مشاورت کی امید ہے جس میں اقتصادی اور مالیاتی پالیسیوں کے میمورنڈم پر حتمی بات چیت ہوگی۔
مالی امداد کا امکان
آئی ایم ایف کی جانب سے اپریل یا مئی میں پاکستان کو 2 ارب ڈالر کی خطیر رقم ملنے کا امکان ہے جس میں ایک ارب ڈالر قرض پروگرام کی اگلی قسط اور ایک ارب ڈالر کلائمیٹ فنانسنگ کے طور پر شامل ہوں گے۔