ارندو گول چترال میں واقع جنگلات میں غیر قانونی کٹائی کے نتیجے میں قومی خزانے کو تقریباً 866 کروڑ روپے کا بھاری نقصان پہنچائے جانے کا انکشاف ہواہے ۔
ذرائع کے مطابق ارندو گول، صوبہ خیبرپختونخوا کے علاقے چترال میں واقع ہے جو گھنے جنگلات اور اعلیٰ معیار کی لکڑی کے ذخائر کے لیے مشہور ہے، محکمہ جنگلات صوبہ خیبر پختونخوا کے غلط فیصلوں اور غفلت نے قیمتی قدرتی وسائل کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا، ان جنگلات میں پائی جانے والی دیودر کی لکڑی کی قیمت 8000 روپے فی مکعب فٹ، کیل لکڑی کی قیمت 3500 روپے فی مکعب فٹ ہے۔
ذرائع کا کہناتھا کہ یہاں پائی جانے والی" فر" (Abies Pindrow) تعمیراتی اور گودا کی صنعتوں میں استعمال ہوتی ہے، سپروس (Picea smithiana) لکڑی کے کام اور کاغذ کی تیاری کے لیے اہم ہے، ارندو گول کی لکڑی تعمیرات، فرنیچر سازی میں استعمال کی جاتی ہے، ضرورت سے زیادہ ارندو گول کی کٹائی اور سمگلنگ نے گہرے خدشات کو جنم دیا ہے۔
محکمہ جنگلات خیبر پختونخوا نے ارندو گول میں 150,000 مکعب فٹ کٹی ہوئی لکڑی کا تخمینہ لگایا اور اس حوالے سے صوبائی حکومت کو رپورٹ پیش کی، 2016 میں صوبائی کابینہ نے ضبط شدہ لکڑی کو مقامی مالکان کے قبضے میں دینے کے لیے ایک پالیسی منظور کی، جس میں کچھ عام معافی دی گئی تھی، اس پالیسی کے تحت، تمام لکڑی کو مالکان کی قیمت پر نکالنے کی اجازت دی گئی اور اس کی نقل و حمل درگئی ڈپو تک کرنے کی ہدایت کی گئی۔
اس پالیسی میں طے کیا گیا تھا کہ لکڑی کی قیمت کا 40 فیصد حکومت کی ملکیت رہے گا، اور 60 فیصد مالکان کو 1100 روپے فی مکعب فٹ پر واپس کیا جائے گا، تاہم، تقریباً 70,000 مکعب فٹ لکڑی نکالنے کے بعد محکمہ جنگلات نے 2016 میں پالیسی میں تبدیلی کر دی، ضبط شدہ 7,50,000 مکعب فٹ لکڑی نیلام نہیں کی گئی، حاصل ہونے والی رقم قومی خزانے میں جمع ہو سکتی تھی جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ فیصلہ بدنیتی پر مبنی تھا۔
اس پالیسی کو اپنانے کے نتیجے میں مالکان نے مزید لکڑی نکالنا بند کر دیا، جس سے پورا منصوبہ ناکام ہو گیا، قومی خزانے کو 8,667 ملین روپے (8.667 بلین روپے) کا نقصان ہوا، جس کا اندازہ محکمہ جنگلات کی بدنیتی پر مبنی پالیسیوں کے باعث نہیں کیا جا سکا۔
معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس سنگین غفلت اور قومی خزانے کو پہنچنے والے اس بھاری نقصان کے ذمہ داروں کو بے نقاب کرنے کے لیے مکمل انکوائری کی جائے، جنگل میں رہنے والی کمیونٹیز کے تحفظات کو دور کرنے کے لیے صوبائی وزیر جنگلات کو طلب کیا جائے تاکہ اس مسئلے کا حل نکالا جا سکے، خیبر پختونخوا کابینہ کے کمزور فیصلوں کا احتساب ضروری ہے جو قومی معیشت کے لیے ایک سنگین نقصان کا باعث بنے رہے ہیں۔