یوکرین نے روس کے خلاف جاری جنگ کے تین سال مکمل ہونے پر یورپی رہنماؤں کی میزبانی کی، یوکرین کی اس میزبانی میں امریکی حکام کی غیر موجودگی نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے روس کی طرف جھکاؤ کو واضح کر دیا۔
یوکرین کے دارلحکومت کیف میں روس کے خلاف جاری جنگ کے تین سال مکمل ہونے پر یورپی کمیشن کی صدر ارسلا وان ڈیر لیین، یورپی کونسل کے صدر انتونیو کوسٹا اور دیگر یورپی ممالک کے رہنماؤں نے یوکرین کا دورہ کیا جبکہ برطانیہ، جرمنی، جاپان، پولینڈ، نیدرلینڈز اور دیگر ممالک کے رہنماؤں نے ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی، تاہم امریکہ کا کوئی نمائندہ شامل نہیں ہوا۔
وان ڈیر لیین نے کہاہے کہ اس جنگ میں صرف یوکرین کا مستقبل داؤ پر نہیں، بلکہ پورے یورپ کی تقدیر بھی خطرے میں ہے۔
یورپی رہنماؤں نے یوکرین کی حمایت جاری رکھنے پر زور دیا اوردفاعی اخراجات میں اضافے کی ضرورت پر بھی بات کی۔ ڈنمارک کی وزیراعظم میٹے فریڈرکسن نے خبردار کیا کہ ہمیں یورپی طور پر اپنی تیاری تیز کرنی ہوگی میرے خیال میں ہمارے پاس چند ماہ کا وقت ہے تمام ضروری فیصلے لینے کے لیےورنہ بہت دیر ہو جائے گی۔
یوکرین اب بھی ٹرمپ کے صدر زیلنسکی کو آمر کہنے اور جنگ کا ذمہ دار ٹھہرانے کے بیانات کے جھٹکے سہہ رہا ہےاس دوران یوکرینی حکام نے انکشاف کیا کہ وہ امریکہ کے ساتھ ایک معاہدے کے حتمی مراحل میں ہیں جس کے تحت یوکرین کی معدنی دولت تک رسائی دی جائے گی۔
یوکرینی نائب وزیرِاعظم اولہا اسٹیفانیشینا نے ایک بیان میں کہا کہ ہمیں امید ہے کہ یوکرین اور امریکہ کے رہنما جلد از جلد واشنگٹن میں اس معاہدے پر دستخط کریں گے تاکہ دہائیوں تک ہمارے عزم کا اظہار کیا جا سکے۔
یہ معاہدہ یوکرین کے لیے امریکی حمایت جیتنے کی کوششوں کا مرکزی نقطہ ہےلیکن الفاظ کے چناؤ پر اختلافات ابھی تک باقی ہیں زیلنسکی نے 500 ارب ڈالر مالیت کے قدرتی وسائل حوالے کرنے کے امریکی مسودے پر دستخط سے انکار کر دیا، اور یہ موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ یوکرین کو امریکہ سے اس قدر مالی امداد نہیں ملی اور معاہدے میں سیکیورٹی ضمانتوں کا فقدان ہے۔
واضح رہے کہ امریکی حکام نے پچھلے ہفتے سعودی عرب میں روسی حکام سے براہ راست مذاکرات کیے اور یوکرین اور یورپی ممالک کو باہر رکھایوکرینی صدر ولودیمیر زیلنسکی نے یورپ سے اپنی خودمختار فوج بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے امریکہ پر عملی مؤقف اپنانے پر زور دیا۔