یوکرین پر روس کے حملے کے بعد پاکستان جیسے ممالک کو مہاجرین کے لئے ملنے والی امداد میں واضح کمی آئی ہے جبکہ مغربی ممالک کی جانب سے وعدے پورے نہ ہونے سے بھی ان مہاجرین کی مشکلات میں کئی گُنا اضافہ ہوا ہے۔
دستاویز کے مطابق پاکستان کو اس حوالے سے ملنے والی امداد تاریخ کی کم ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ دستاویز پاکستان میں مہاجرین اوران سے متعلق معاملات پر کام کرنے والی وزارتوں کا تیار کردہ ہے۔
دستاویز میں لکھا گیا ہے کہ افغانستان میں طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے جان بچانے کے لئے پاکستان کا رخ کیا جن میں سے اب بہت سے لاپتہ بھی ہیں یعنی ان کا کوئی ریکارڈ ہی دستیاب نہیں اسی دوران کچھ وہ لوگ بھی پاکستان آئے جنہوں نے دہشت گردی کی۔
دستاویز کے مطابق پاکستان کو اس وقت مہاجرین کی میزبانی کے لئے جو امداد مل رہی ہے وہ 1980 سے بھی کم ہے جبکہ اس دوران دنیا نے پاکستان کے اپنے معاشی حالات کی خرابی کے باوجود اس پر دباو ڈالا کہ وہ ہر صورت افغانوں کو اپنے ہاں رکھے۔
اسی دستاویز میں اس امداد کا بھی ذکر کیا گیا ہے جو مختلف اوقات میں امریکہ، یورپی ممالک اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین یواین ایچ سی آر سے پاکستان کو ملی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 1989 سے پاکستان میں مہاجرین کی مستقل موجودگی سے پاکستان کی معیشت اورانفراسٹرکچر پر برا اثر پڑا ہے جبکہ پاکستان میں مہاجرین کی اتنی بڑی تعداد کے باوجود عالمی برادری خصوصا یورپی ممالک نے اپنی امداد کا رخ یوکرین کے مہاجرین کی جانب موڑا جس سے پاکستان جیسے ان ممالک پر دباو بڑھا جہاں پر مہاجرین کی ایک بڑی تعداد دہائیوں سے رہ رہی ہے۔
دستاویز کے مطابق پاکستان میں مہاجرین کی اتنی بڑی تعداد کی موجودگی کی بڑی وجہ افغانستان کے اندرونی حالات کی خرابی ہے جہاں پر معیشت، انسانی حقوق خصوصا خواتین کے حقوق کے بارے میں عالمی برادری کو خدشات لاحق ہیں۔