پاکستان میں پیسے کی تنگی کو دور کرنے اور خوابوں کو پورا کرنے کی خواہشات دل میں سجائے غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک جانے کی کوشش میں پاکستانی نوجوان سمندر کی گہرائیوں میں دفن ہو رہے ہیں جبکہ انسانی سمگلر ان بے بس اور لاچار لوگوں سے بھاری رقم اینٹھ کر خفیہ مقامات پر منتقل ہو جاتے ہیں اور پیسہ ختم ہو نے پر پھر سے شکار کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں ، سمندر کی لہروں کی سپرد ہونے والے یہ نوجوان محض 16 سے 23 برس کے ہیں جو تعلیم حاصل کرنے کی جدوجہد کی بجائے ڈالر پاونڈ کمانے کی خواہش میں تابوت میں لوٹ رہے ہیں اور کچھ اپنے والدین کو تاعمر انتظار کا غم دے کر سمندر کی گہرائیوں میں کھو رہے ہیں ۔ حکومت پاکستان ان کیخلاف شنکجہ کسے ہوئے ہے اور درجنوں انسانی سمگلروں کو گرفتار کرکے مقدمات چلائے جارہے ہیں لیکن پھر بھی یہ نامراد لوگ خفیہ ٹھکانوں سے آپریٹ کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔گزشتہ روز پیش آنے والے ایک اور کشتی حادثہ نے دل کو چیر کے رکھ دیاہے جس میں 73 افراد سوار تھے اور ان میں 63 پاکستانی تھے ، اب تک کی اطلاعات کے مطابق کشتی سواروں میں سے 37 کو بچا لیا گیاہے جبکہ 16 کی شناخت ہو چکی ہے تاہم 16 فی الحال لاپتا ہیں۔
حال ہی میں پیش آنے والے واقعات میں زیادہ افراد نے غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے کیلئے لیبیا کا ہی راستہ اختیار کیا لیکن کیوں ؟ بذریعہ لیبیا روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں لوگ یورپی ممالک جانے کی خواہش میں سفر کا آغاز کرتے ہیں ، یہ انتہائی خطرناک ، مہنگا اور غیر یقینی راستہ ہے لیکن پھر بھی یہ نوجوان جان داؤ پر لگا کر موت کی طرف نکل پڑتے ہیں ۔ لیبیا ایک ایسا ملک ہے جہاں کمزور حکومتی کنٹرول کمزور ہونے کے باعث انسانی سمگلنگ کا نیٹ ورک اپنے پنجے گاڑے بیٹھاہے اور یہی وجہ ہے کہ ڈنکی مافیا نے لیبیا کو یورپ جانے کیلئے آسان راستہ سمجھ لیا ہے ۔لیبیا کی جغرافیائی پوزیشن اسے غیر قانونی ہجرت کے لیے اہم بنا دیتی ہے۔ یہ ملک بحیرۂ روم کے کنارے واقع ہے اور اس کے ساحل سے اٹلی کے جزیرے لامپیدوسا تک سمندری فاصلہ محض چند سو کلومیٹر کا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غیر قانونی تارکینِ وطن لیبیا کو یورپ کے دروازے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔لیبیا میں انسانی اسمگلرز کی منظم مافیا موجود ہے جو یورپ جانے کے خواہشمند افراد کو پناہ دیتی ہے، انہیں تربیت دیتی ہے اور کشتیوں کے ذریعے سمندر پار کرانے کا انتظام کرتی ہے۔ یہ اسمگلر مختلف راستے فراہم کرتے ہیں، جن میں ٹرکوں کے ذریعے صحرائی سفر، خفیہ ٹھکانوں میں پناہ، اور آخر میں سمندری راستے سے یورپ پہنچنے کی کوشش شامل ہوتی ہے۔
پاکستان، بنگلہ دیش، اور دیگر ترقی پذیر ممالک کے باشندے لیبیا کا ویزا حاصل کرنا نسبتاً آسان سمجھتے ہیں۔ کچھ لوگ جعلی ورک پرمٹ کے ذریعے لیبیا پہنچتے ہیں، جبکہ دیگر کو انسانی اسمگلرز غیر قانونی طور پر لے جاتے ہیں۔ لیبیا پہنچ کر، انہیں یورپ جانے والے قافلوں میں شامل کر دیا جاتا ہے۔ کئی تارکین وطن سمجھتے ہیں کہ اگر وہ کسی طرح یورپ پہنچ جائیں تو وہاں کی امیگریشن پالیسیوں کا فائدہ اٹھا کر سیاسی پناہ حاصل کر سکتے ہیں۔ بعض یورپی ممالک، جیسے اٹلی اور اسپین، انسانی بنیادوں پر کچھ تارکین وطن کو قانونی رہائش فراہم کرتے ہیں، جس کی وجہ سے مزید لوگ خطرہ مول لینے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔لیبیا کے ذریعے یورپ جانے کے خواہشمند افراد کو کئی ہولناک چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
بیشتر تارکین وطن پاکستان سے دبئی یا ترکی کے راستے لیبیا پہنچتے ہیں، جہاں سے وہ سہارا کے صحرا میں خطرناک سفر اختیار کرتے ہیں۔ پانی اور خوراک کی کمی، انسانی اسمگلرز کی بدمعاشی اور سخت موسم کی وجہ سے ہر سال درجنوں افراد راستے میں ہلاک ہو جاتے ہیں۔لیبیا میں کئی انسانی اسمگلرز کے خفیہ جیلیں اور قید خانے موجود ہیں، جہاں تارکین وطن کو قید رکھا جاتا ہے اور ان کے اہلِ خانہ سے مزید رقم وصول کرنے کے لیے تشدد، بھتہ خوری جیسے جرائم کیے جاتے ہیں۔لیبیا سے اٹلی جانے کا آخری مرحلہ بحیرۂ روم کو کشتیوں کے ذریعے عبور کرنا ہوتا ہے۔ اکثر ان کشتیوں کی حالت انتہائی خستہ ہوتی ہے اور ان میں گنجائش سے زیادہ افراد سوار ہوتے ہیں۔ نتیجتاً، ہر سال سینکڑوں افراد کشتی الٹنے یا ڈوبنے کی وجہ سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔
لیبیا کا راستہ ایک موت کا سفر بن چکا ہے، جس میں کئی نوجوان اپنی زندگیاں گنوا بیٹھتے ہیں۔ بہتر مستقبل کی تلاش میں، وہ اسمگلرز کے چنگل میں پھنس کر اپنی جمع پونجی اور زندگیاں دونوں کھو دیتے ہیں۔ حکومت پاکستان نے کچھ عرصہ کے دوران غیر قانونی ہجرت کو روکنے کیلئے کارروائیاں تیز کرتے ہوئے انسانی سمگلروں گرفتار کر لیاہے جبکہ آگاہی مہم بھی چلائی جارہی ہے اس کے علاوہ ایئر پورٹس پر نگرانی کو بھی سخت کر دیا گیاہے ۔ لیکن اس صورتحال کے مکمل خاتمے کیلئے حکومت پاکستان کو ملک میں روزگار کے مواقعے پیدا کرنے ہوں گے تاکہ نوجوانوں کو ملک چھوڑنے کی ضرورت نہ پڑے ۔