سوچیے اور ایک دریا کا تصور کیجیئے۔ ایک ایسا دریا جس کے ایک طرف امریکہ ہے، دوسری جانب چین اور درمیان میں کشتیاں رواں ہیں۔ ہر کشتی پر مال کا ڈھیر لدا ہے۔ اچانک آسمان پر بادل گرجنے لگتے ہیں۔ بادل نہیں، ٹیرف کے حکم نامے کڑکنے لگتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے قلم اٹھایا اور دریا میں آگ لگادی۔ 25 فیصد ٹیرف اور 10 فیصد ٹیرف۔ یہ کوئی معاشی فیصلہ نہیں۔ یہ اعلانِ جنگ ہے۔
چین، کینیڈا، میکسیکو۔ امریکہ ان ممالک سے بہت زیادہ مال منگواتا ہے۔ صدر ٹرمپ نے دوسری بار اقتدار میں آتے ہی ان تینوں ممالک پر ٹیرف لگادیا ہے۔ بظاہر ٹرمپ کا کہنا کہ "ہمیں اپنی صنعتوں کو بچانا ہے۔" لیکن حقیقت میں یہ ایک گہری چال ہے۔ ایک ایسا وار جو تجارت کی چادر کو چاک کردے۔ جیسے کوئی بھڑکتی ہوئی مشعل تیل کے دریا میں پھینک دے اور پھر دیکھے کہ آگ کتنی دور تک پھیلتی ہے۔
کینیڈا نے 155 ارب ڈالر کی امریکی مصنوعات پر 25 فیصد محصولات لگاکر جواب دے دیا ہے۔ چین نے کہا ہے کہ "ہم ڈبلیو ٹی او میں مقدمہ کریں گے۔" البتہ میکسیکو ابھی خاموش ہے مگر اُس کی خاموشی میں بھی دھماکے چھپے تھے۔
سوال یہ ہے کہ کیا واقعی یہ صرف ٹیرف کی جنگ ہے؟ یا یہ ایک ایسی لڑائی ہے جس میں انسانیت کا خون بہایا جانا ہے؟ اس کا جواب ٹیکساس کے کسان کی کہانی میں پوشیدہ ہے۔ یہ کہانی ہے جان کی۔ جان ٹیکساس کا کسان ہے۔ وہ سویا بین اُگاتا ہے۔ اُس کا 80 فیصد سویا بین چین جاتا ہے۔ ٹرمپ کے ٹیرف لگنے کے بعد اگر چین سویا بین درآمد کرنا بند کردیتا ہے تو جان کی فصل کھیتوں میں سڑنے لگتی ہے۔ بینک جان کو قرضے کی ادائیگی کا نوٹس بھیجتا ہے۔ جان کی بیوی روتی ہے۔ بیٹی کہتی ہے کہ "ابا، ہماری یونیورسٹی کی فیس کا کیا ہوگا؟" خود کو لاچار پاکر جان اپنی ہی جان لینے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ یہ صرف ایک جان کی کہانی نہیں ہوگی۔ یہ ہزاروں کسانوں کی داستان ہوسکتی ہے۔ ٹرمپ نے جو آگ لگادی ہے، اُس میں جلنے والے یہی لوگ ہوسکتے ہیں۔
ادھر چین کے لیے یہ جنگ صرف ٹیرف کی جنگ نہیں بلکہ یہ اس کے وقار کی جنگ ہے۔ ایک ایسی طاقت جو اب کسی کے سامنے جھکنے کو تیار نہیں۔ چینی لیڈر شی جن پنگ کا کہنا ہے کہ "ہماری تاریخ غلامی کی نہیں، جدوجہد کی ہے۔" چین ڈبلیو ٹی او میں کیس دائر کرنے جارہا ہے۔ یہ اب صرف ایک کاغذی جنگ نہیں۔ چین کے پاس ایک ہتھیار ہے ٹیکنالوجی میں ہمسری کا ہتھیار۔ دوسری جانب امریکی ٹیک کمپنیاں چین پر انحصار کرتی ہیں۔ ایپل، مائیکروسافٹ، ٹیسلا۔ یہ سب کی فیکٹریاں شینزین میں ہیں۔ ٹرمپ نے ٹیرف لگایا تو چین نے کہا کہ "ہماری مٹی سے بنی مصنوعات کو روکو گے؟ ہماری مٹی ہی تو تمہاری ٹیکنالوجی کو جنم دیتی ہے"۔
ادھر کینیڈا کا درد سب سے سوا ہے۔ کینیڈا کو اس دشمن کا سامنا ہے جو کئی دہائیوں تک اس کا دوست تھا۔ ایک وقت تھا جب کینیڈا اور امریکہ دونوں ایک دوسرے کے سب سے بڑے ساتھی اور اتحادی تھے۔ ٹروڈو اور ٹرمپ ہاتھ میں ہاتھ ڈالے فٹبال میچ دیکھتے تھے۔ لیکن آج؟ آج ٹروڈو کہتے ہیں کہ "ہم جواب دیں گے"۔ اور ٹروڈو نے جواب دے بھی دیا۔ 155 ارب ڈالر کی مصنوعات پر پر ٹیرف لگاکر۔
ایک اور منظر دیکھیں۔ کیلسو، وسکونسن کی ایک فیکٹری ہے۔ یہاں کینیڈین اسٹیل استعمال ہوتا ہے۔ فرض کریں کہ ٹروڈو کے ٹیرف کے بعد فیکٹری بند ہوجاتی ہے تو کم از کم 200 مزدوروں کے گھر کا چولہا بجھ جاتا ہے۔ ایک مزدور سوال کرتا ہے کہ "کیا ہماری قربانیاں صرف سیاستدانوں کے ایکو سسٹم کا حصہ ہیں"؟
میکسیکو اس معاملے میں ابھی تک خاموش ہے کیونکہ اُس کے پاس کوئی راستہ نہیں۔ امریکہ میکسیکو کا سب سے بڑا پارٹنر بھی ہے۔ ٹرمپ نے دھمکی دی کہ "ہم نیفٹا کا معاہدہ ختم کر دیں گے"۔ میکسیکو نے دھمکی سنی اور سر کو جھکا لیا۔ لیکن ایوینڈا نامی گاؤں میں امریکی کپاس درآمد کرنے والی فیکٹری بند ہوجاتی ہے۔ 150 خواتین جن کے ہاتھ میں روزگار تھا، آن کی آن میں اُن کے ہاتھ خالی ہوجاتے ہیں۔
ٹیرف لگانے کے پیچھے ٹرمپ کے اپنے بہانے ہیں، اپنی توجیحات ہیں۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ "ہماری صنعتیں مر رہی ہیں، ہمیں اپنی صنعتوں کو بچانا ہے، جبکہ چین کہتا ہے کہ "تمہاری عیاشی ہماری محنت پر ہے"۔ تو ایسے میں سچ کہاں ہے؟
سچ دور کھڑا مسکرارہا ہے "یہ سچ کی نہیں بلکہ یہ صرف تجارت کی جنگ ہے، یہ طاقت اور غرور کی جنگ ہے"۔ ایسے میں انسانیت کہاں کھڑی ہے؟ امریکی مزدور چین کو کوس رہا ہے۔ چینی مزدور امریکہ کو گالیاں دے رہا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ تو پھر یہ کیسا تضاد ہے؟ یہ کیسا پاگل پن ہے؟
تاریخ گواہ ہے کہ ہر جنگ کا اختتام ہوتا ہے۔ ویسٹ فیلیا کا امن بھی قائم ہوا اور دوسری جنگِ عظیم کا خاتمہ بھی ہوکر رہا۔ تو کیا آج کی تجارت کی جنگ بھی ختم ہوگی؟
جواب ہاں میں ہے لیکن شرط یہ ہے کہ ہم انسانیت کو مرکز بنائیں۔ ٹرمپ اور شی جن پنگ مذاکرات کی جس میز پر بیٹھیں۔ اس میز پر صرف اعداد و شمار نہ ہوں بلکہ اس پر جان کی فصل کا حساب بھی ہو، ایوینڈا کی خواتین کی فریاد بھی ہو اور کیلسو کے مزدوروں کے آنسو بھی ہوں۔
آئیے اس دن کا خواب دیکھتے ہیں کہ جب نفرت کا دریا شانت ہوگا اور محبت اور انسانیت کا دریا پھر سے رواں ہوگا۔ ایسا دریا جس میں کشتیاں چلیں گی۔ ٹرمپ اور ٹروڈو ہاتھ ملائیں گے۔ اور شی جن پنگ مسکرائیں گے۔ یہ کوئی خواب نہیں۔ یہ ممکن ہے۔ بشرطیکہ ہم سمجھیں کہ تجارت کی جنگ کو جیتنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ انسانیت کو ہارنے نہ دیا جائے۔
مصنفہ نازیہ مصطفیٰ کالم نگار اور صحافی ہیں ان سے naziatoheed086@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ۔